رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس نے گلگت بلتستان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مشترکہ تحریک چلانے کا اعلان کر دیا، اے پی سی کے شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ آئینی حقوق کی تحریک کو گلی گلی لے کر جائیں گے، پاکستان اگر ہمیں متنازعہ سمجھتا ہے تو ہم متنازعہ حیثیت کے حقوق لے کر رہیں گے۔
اتوار کے روز اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن، عوامی ایکشن کمیٹی، جی بی ایورنیس فورم کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے چیئرمین حافظ سلطان رئیس، ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی جنرل سیکرٹری آغا سید علی رضوی، اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کیپٹن (ر) محمد شفیع، سپریم کونسل گلگت بلتستان کے چیئرمین ڈاکٹر غلام عباس، تحریک انصاف گلگت بلتستان کے رہنما جسٹس (ر) سید جعفر شاہ، آمنہ انصاری، گلگت بلتستان ایورنیس فورم کے ترجمان انجینئر شبیر حسین سمیت گلگت بلتستان یوتھ فورم، تحریک اسلامی پاکستان، اپوزیشن اتحاد گلگت بلتستان، جی بی جمہوری اتحاد، مرکزی امامیہ کونسل، گلگت بلتستان سٹوڈنٹ فیڈریشن۔ گلگت بلتستان یوتھ الائنس، گلگت بلتستان بار کونسل سمیت دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحد ت مسلمین گلگت بلتستان کے صوبائی سیکرٹری جنرل سید علی رضوی نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد ہم مایوس ہوچکے ہیں، اب ہم نے اپنی حیثیت کا تعین خود کرنا ہے، جب تک ہم اپنی طاقت اور اہمیت کو نہیں جانیں گے، ہم کامیاب نہیں ہونگے، آج ہم ایک نکتے پر پہنچ چکے ہیں اور ہمارے ہدف کا تعین ہوچکا ہے، ہم اپنی حیثیت کا تعین کرنے کیلئے کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے، ہماری آخری خواہش یہ ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور ہم بائی چوائس پاکستانی ہیں، اگر پاکستان ہمیں متنازعہ سمجھتا ہے تو ہم متنازعہ حیثیت کے حقوق لے کر رہیں گے، انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈنڈوں کے ذریعے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی تھی، آج بھی ہم اپنے حقوق لے سکتے ہیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان کے رہنما جسٹس (ر) جعفر شاہ نے کہا کہ ہم نے سابق چیف جسٹس کو گلگت بلتستان آمد پر خوش آمدید کہا تھا اور ان کی خوب مہمان نوازی کی تھی، لیکن انہوں نے جو صلہ دیا، وہ سب کے سامنے ہے، سابق چیف جسٹس نے اپنے دور میں آئینی حقوق اور عوامی مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے، سید جعفر شاہ نے کہا کہ عدالت کے اس فیصلے کے بعد میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ ہم سکینڈ ڈویژن شہری ہیں، اگر پاکستان چاہتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں تو ہمیں صوبہ دے، اگر متنازعہ سمجھتا ہے تو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے، ہر بار مسئلہ کشمیر کے نام پر ہمیں آرڈر تھما دیا جاتا ہے، یہ ناقابل قبول ہے، یہ آرڈر مزید نہیں چلے گا، سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ آخری آرڈر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف خواجہ سراؤں کو بھی ووٹ کا حق دیا گیا ہے، دوسری جانب گلگت بلتستان سے ووٹ کا حق بھی چھینا جا رہا ہے، سابق چیف جسٹس نے جاتے جاتے جو فیصلہ دیا، وہ ہمیں قبول نہیں ہے۔ ایک ستر سال کا ریٹائرڈ جج گلگت بلتستان میں تعینات کرنا سراسر ناانصافی ہے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا مسئلہ ایک ہے، لیکن کشمیر میں کوئی ریٹائرڈ جج نہیں لگایا جاتا، لیکن گلگت بلتستان کو کھلونا بنایا گیا ہے، گریڈ بیس کا ایک چیف سیکرٹری جج تعینات کریگا تو اس عدالتی نظام کا کیا ہوگا۔؟
عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا سلطان رئیس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جی بی کو متنازعہ قرار تو دیدیا، لیکن متنازعہ حقوق کہیں نظر نہیں آئے، آج ریاست نے ہمیں متنازعہ قرار دیا ہے تو پھر ہمیں وہ حقوق بھی فراہم کرے، جو متنازعہ علاقوں کیلئے معین ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے مل کر کام کرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، میری تجویز ہے کہ کشمیری قیادت سے مل کر آگے بڑھیں، عوامی ایکشن کمیٹی اپنی تحریک کو گلی گلی لے کر جائے گی۔
قانون اسمبلی مین اپوزیشن لیڈر کیپٹن محمد شفیع نے کہا کہ متنازعہ حیثیت سے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کو نافذ کیا جائے، سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے ابہام دور ہوچکا ہے، لہٰذا وفاق عدالتی فیصلے کے تناظر میں جی بی کے بنیادی حقوق فوری طور پر فراہم کرے۔
تحریک انصاف گلگت بلتستان کی رہنما آمنہ انصاری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہم سب کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا، ہمیں متحد ہو کر حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی، اس فیصلے کے بعد ہمیں اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق اختیارات کا مطالبہ کرنا ہوگا، آمنہ انصاری نے کہا کہ احتجاج اور دھرنا آخری آپشن ہونا چاہیئے، اس سے پہلے کشمیر قیادت سے بھی بات کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں تمام تر سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہوکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
گلگت بلتستان ایورنیس فورم کے ترجمان انجینئر شبیر حسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ستر سال سے ہم حقوق سے محروم ہیں کیونکہ ہم متنازعہ ہیں، سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ حقائق کی بنیاد پر دیا ہے، عدالت نے خود کہا ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ فاٹا کے معاملے پر سب اکٹھے تھے، آج گلگت بلتستان میں ہم تقسیم کیوں ہیں؟ المیہ یہ ہے کہ ہمارے اندر بھی منافقت ہے، اس منافقت سے باہر نکلنا ہوگا، ہمیں ایک بیانیہ پر متفنق ہونے کی ضرورت ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کا مقصد ہی یہی ہے کہ سب اکٹھے ہو کر ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوں، ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے کبھی متنازعہ تو کبھی خالصہ سرکار کہا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ جہاں سی پیک اور دیامر بھاشا ڈیم بن رہا ہے، اس علاقے کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
گلگت بلتستان سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر غلام عباس نے اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو بنیادی حقوق فراہم کریں، حکومت نے خود 1948ء میں لوکل اتھارٹیز کا قیام عمل میں لانے کا وعدہ کیا تھا، حکومت نے اپنے وعدوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کو لکھ کر بھی دیا تھا، ہم ستر سال سے جو بات کہہ رہے تھے، وہی آج سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی واضح کر دی ہے، عدالت کے فیصلے کے بعد گلگت بلتستان کے عوام کو ایک سمت مل گئی ہے، انہوں نے کہا کہ میں 1999ء سے یہ کیس لڑ رہا ہوں اور اس کے تمام زاویوں سے واقف ہوں۔ یہ کونسا قانون ہے کہ گلگت بلتستان ایپلٹ کورٹ میں ریٹائرڈ جج بھرتی کئے جا رہے ہیں، آئین اور قانون میں کہاں لکھا گیا ہے کہ ستر سالہ ریٹائرڈ جج بھرتی کئے جائیں، انہوں نے کہا کہ آج امید کی کرن پیدا ہوگئی ہے، جی بی کے حقوق کیلئے سب ایک ہوگئے ہیں، یہ سلسلہ برقرار رکھنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
اے پی سے کا مشترکہ اعلامیہ
یہ آل پارٹیز کانفرنس ان نکات پر متفق ہے کہ
1۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔
2۔ گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سے مشترکہ تحریک چلانے کا اعلان کیا جاتا ہے۔
3۔ حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں گلگت بلتستان کے سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے متنازعہ علاقے کے حقوق کے لئے جدوجہد کو تیز کیا جائے گا۔
4۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے موجود ابہام دور ہوچکا ہے، لہذا وفاق سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں گلگت بلتستان کے بنیادی حقوق فی الفور فراہم کرے۔
5۔ یہ آل پارٹیز کانفرنس سپریم کورٹ کا فیصلہ جو کہ یو این سی آئی پی کی قرارداد کو بنیاد بنا کر دیا گیا ہے، کی رو سے مطالبہ کرتی ہے کہ گلگت بلتستان میں لوکل اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے، جس میں تین ریاستی امور کے علاوہ تمام اختیارت گلگت بلتستان کی منتخب اسمبلی کے سپرد کئے جائیں۔
6۔ متنازعہ حیثیت سے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کو نافذ کیا جائے۔
7۔ آزاد عدلیہ کے قیام کے لئے آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ کی طرز پر عدلیہ کا سیٹ اپ دیا جائے۔
8۔ تمام حکومتی شعبہ جات میں پاکستان حکومت کی طرف سے آنے والے بیوروکریٹس کا ناجائز کوٹہ ختم کیا جائے۔
9۔ شیڈول فور اور اے ٹی اے کے تحت زبان بندی کرنے کا ظالمانہ سلسلہ بند کیا جائے۔
10۔ ان تمام اہم بنیادی حقوق کے حصول کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء مل کر جدوجہد کرنے پر اتفاق کرتے ہیں۔