رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ انسانی مزاج کا حصہ ہے کہ وہ وقت کے ساتھ تاریخ، افکار و سوانح میں ردوبدل کرتا ہے۔ ایک زمانے میں لکھی گئی تاریخ زمانہ گذر جانے کے بعد کیا سے کیا ہو جاتی ہے۔ یہی حال افکار و نظریات کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ زمانہ گذر جانے کے بعد اگر کسی مفکر کو دنیا میں واپس آنے کا موقع ملے تو وہ شاید اپنے نام سے چلنے والے افکار کو دیکھ کر حیران و ششدر ہی رہ جائے۔ اہم شخصیات کی سوانح اور ان کے کردار و جدوجہد کے انداز سے بھی کوئی مختلف سلوک نہیں ہوتا۔ عصر حاضر میں امام خمینی اور ان کی تحریک نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور نسل جوان سمیت ہر طبقہ ان کے افکار، نظریات اور شخصیت سے متاثر ہوا تھا۔
اب چونکہ اس عظیم کارنامہ کو چار دہائیاں گذر چکی ہیں، لہذا امام خمینی کے نظریات، ان کے انداز جدوجہد اور ان کی تاریخ کی حفاظت کے لئے ان کی شخصیت اور افکار کو بار بار بیان کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ ان کی انقلابی جدوجہد اور معنوی و روحانی شخصیت کے بارے میں تحریف سے انکار نہیں کیا جا سکے گا۔
آج کے نوجوانوں نے چونکہ اسلامی انقلاب کی تحریک اور اس کی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، لہذا انہیں زیادہ دقّت نظر اور غور و خوض کی ضرورت ہے کہ وہ انقلاب اور امام خمینی کی شخصیت کو گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں اور صرف ظواہر پر نہ جائیں بلکہ اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
مثلاً آج کا ایک نوجوان انقلاب اسلامی کی تحریک کو صرف شہنشاہی نظام حکومت کے خاتمے اور نظام ولایت فقیہ کے نفاذ کی ایک جدوجہد سمجھ سکتا ہے اور امام خمینی کو شاہ مخالف ایک سیاسی لیڈر کے طور پر دیکھ سکتا ہے، لیکن دراصل امام خمینی کی قیادت میں جو اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تھا، وہ صرف سیاسی حکومت کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ ایک ایسی گہری تبدیلی تھی، جس نے نہ صرف سیاسی نظام کو بدلا بلکہ سماج اور اس کے رویئے بھی بدل ڈالے۔
اگر صرف سیاسی تبدیلی کو ہی دیکھا جائے تو یہ تبدیلی صرف حکمران بدلنے کی حد تک نہ تھی بلکہ اس کے پیچھے اصل بات یہ تھی کہ اغیار کے اشاروں پر چلنے والی حکومت کے بجائے الہی و الہامی اصولوں پر مبنی ایسی حکومت لائی جائے، جس کی جڑیں عوامی ہوں اور وہ عوام کی رائے اور خواہشات کے مطابق چلائی جائے، گویا ایسا عوامی اختیار نافذ کیا جائے جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہو۔
جس طرح انقلاب ایک سیاسی تبدیلی تھی، بالکل اسی طرح یہ ایک سماجی تبدیلی بھی تھی بلکہ معاملہ برعکس ہے، کیونکہ سماجی تبدیلی سیاسی تبدیلی سے زیادہ گہری اور پر اثر تھی، کیونکہ سماجی تبدیلی کی وجہ سے سیاسی تبدیلی رونما ہوئی تھی۔
انقلاب کی کامیابی سے پہلے ایرانی معاشرہ ایک غیر متحرک اور مغرب زدہ سماج تھا، جسے امام خمینی نے زندہ اور متحرک کیا اور اسے ایک مذہبی شناخت عطا کی، جس کی وجہ سے وہ اصلی اور خالص اسلام کے پاسدار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور آج جہاں مظلوم ہے، وہاں اس معاشرے کے تربیت یافتہ افراد موجود ہیں۔ امام خمینی ایک پرکشش شخصیت کے مالک تھے، جنہوں نے نوجوانوں کو بہت متاثر کیا۔ ان میں پائی جانے والی یہ جذابیت ان کی صداقت اور اللہ پر ان کے توکل کی وجہ سے تھی۔
امام خمینی نے کسی کی پروا کئے بغیر اصلی اسلام کو متعارف کروایا ،جس میں آزادی اور خود مختاری کا نعرہ دیا گیا تھا، یہ ایک ایسا خالص اور سچا اسلام تھا، جس میں نہ تو رجعت پسندی تھی اور نہ ہی تنزلی اور یہی چیز نوجوانوں کو جذب کرنے کا باعث بنی۔
آزادی و خود مختاری، سماجی انصاف کا قیام اور امریکہ کے تسلط سے آزاد ہونا وہ نعرے تھے، جو امام خمینی نے بلند کئے۔ یہ نعرے انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں، کیونکہ دنیا کی ہر قوم کا سلیم الفطرت انسان اغیار کے تسلط سے آزاد رہنا چاہتا ہے اور سماجی انصاف پر مبنی سوسائٹی میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امام خمینی کی شخصیت اور ان کے ذریعے پیش کئے گئے نظریات انتہائی پرکشش تھے، جس وجہ سے تمام طبقات خصوصاً نوجوان ان کی طرف کھچے چلے آئے۔
امام خمینی کی ایسی بابصیرت شخصیت تھی، جس کے تیس پینتیس سال پہلے بیان کردہ اقوال و نظریات کی سچائی آج ہر ایک کو نظر آرہی ہے۔ مثلا آج سب حتی کہ یورپی حکومتوں کے سربراہ بھی امریکہ کو غیر قابل اعتماد قرار دے رہے ہیں، جبکہ امام خمینی نے پہلے ہی امریکہ کو بڑا شیطان کہہ دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
امام خمینی جیسی بابصیرت شخصیت نوجوانوں کو کیسے نظر انداز کرسکتی ہے، جبکہ نوجوان ہی قوموں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں۔ یہی قوموں کے معمار ہوتے ہیں۔ انہیں ہی مستقبل میں ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے۔ اس لیے زندہ اور بیدار قومیں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی پر سب سے زیادہ توجہ دیتی ہیں، تاکہ مستقبل میں وہ ملک و قوم کی بہتر انداز میں خدمت اور راہنمائی کرسکیں۔ اسی لئے امام خمینی کی کتب، تقاریر اور پیغامات میں نوجوانوں کا ذکر بار بار آیا ہے۔ امام خمینی کی کتب اور تقاریر کے مجموعے میں کلمه جوان 3818 مرتبہ تکرار ہوا ہے اور صرف آپ کے وصیت نامہ میں یہ لفظ 47 بار آیا ہے، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ نے نوجوانوں کے لئے متعدد پیغامات چھوڑے ہیں۔
امام خمینی اپنی قوم کے نوجوان کو تعلیم یافتہ اور اخلاق حسنہ سے مزین جوان دیکھنا چاہتے تھے، کیونکہ باکردار نوجوان اور بہتر تعلیم سے مزین نوجوان ہی قوموں کی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں۔ ایک باکردار قوم کی علامت یہ ہے کہ اس کا نوجوان با کردار ہے۔ جو قوم و ملت کوئی خاص اور متعین مقصد رکھتی ہو اور اس کے حصول کی جدوجہد کرنا چاہتی ہو تو اسے باہمت، باشعور، متحرک، پرجوش اور پرمغز نوجوان تیار کرنا ہوتے ہیں۔ وہ قوم ثروت سے مالا مال ہوتی ہیں، جس کا جوان فولادی ہمت اور بلند عزم و استقلال سے سرفراز ہو۔ باشعور نوجوان ہی ایک باشعور معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
امام خمینی نے ملکی اور غیر ملکی نوجوانوں کو اپنے وصیت نامہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ انہیں چاہیئے کہ معاشرے کے کمزور طبقے کی دلجوئی کریں اور بالکل آزادانہ طور پر مکمل استقلال کے ساتھ فعالیت کریں، کیونکہ ملت کی نجات اسی میں ہے۔ اسی پیغام میں آپ نے یہ بھی کہا کہ نوجوانوں کو متحد ہو کر رہنا چاہیئے، تاکہ آبرو اور عزت کے ساتھ زندگی گزاریں۔
آپ نے مغربی افکار کے دلدادہ نوجوانوں کو مخاطب کرکے پوچھا ہے کہ آپ ایسے افراد کی پیروی کیوں کرتے ہیں، جو اپنی ذاتی مفاد سے زیادہ سوچ ہی نہیں سکتے، ان کے دعوے ان کے عمل و کردار سے مختلف ہیں اور وہ صرف صاف دل رکھنے والے نوجوانوں کو دھوکہ دینے کے لئے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔(صحیفه امام خمینی کی جلد 21 ص 438) امام خمینی نے نوجوانوں میں احساس ذمہ داری کا احساس بیدار کیا، کیونکہ نوجوانوں میں احساسِ ذمہ داری ایک ایسی صفت ہے، جو معاشرے کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔
احساس ذمہ داری کے علاوہ امام خمینی نے جوانوں میں شجاعت اور بہادری کا جذبہ بڑھایا اور جو جوان دور شہنشاہی میں عیاشیوں میں پڑے ہوئے تھے، وہ وطن کے دفاع کے لئے سرگرم عمل ہوگئے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر محاذ جنگ پر حاضر ہوگئے اور ہزاروں ایسے جوانوں نے اپنی جان کا نظرانہ اسلامی انقلاب کے دفاع کے لئے پیش کر دیا۔ یقیناً وہی قوم کامیاب ہے، جس کے نوجوان مشکلات سے گھبرانے کے بجائے بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ فتح و نصرت ان اقوام کا مقدر ہوتی ہے، جن کے نوجوان طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ سعادت ان اقوام کو نصیب ہوتی ہے، جن کے نوجوان محنت میں عظمت کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں، وہی اقوام آگے بڑھتی ہیں، جن کے نوجوان جہدِ مسلسل میں چھپی حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں۔
امام خمینی اپنی زندگی میں جس طرح نوجوانوں کی راہنمائی کرتے رہے، اسی طرح اپنے مرنے کے بعد بھی اپنے وصیت نامے کے ذریعے دیگر طبقات کے ساتھ نوجوانوں کے لئے بھی اہم پیغام چھوڑ گئے۔ وصیت نامہ میں جوانوں سے متعلق جو کچھ آپ نے کہا ہے، اسے چار عنوان کے تحت ذکر کیا جا سکتا ہے۔
الف: شہنشاہی حکومت کا جوانوں کی تربیت کے لئے مقررہ کردہ اہداف اور اس کا طریقہ کار
ب: جوانوں کی اصلاح کے لئے اسلامی حکمت عملی
ج: انقلاب اسلامی کی کامیابی اور دفاع وطن کے لئے نوجوانوں کی قربانیاں
د: تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی اصلاح
پہلے عنوان کا خلاصہ یہ ہے کہ شہنشاہی نظام میں نوجوانوں کو عیاشی اور فحاشی کی طرف مائل کیا جا رہا تھا؛ وہ نظام یہ چاہتا تھا کہ اس ذریعے سے نوجوانوں کو مصروف رکھا جائے، تاکہ وہ اعلی اور ارفع اہداف کے حصول کے لئے فعالیت نہ کرسکیں۔ مزید برآں منشیات کی لعنت اور سماجی اداروں کی ناقص کارکردگی نے نوجوانوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ نوجوانوں میں احساسِ ذمہ داری کا فقدان ہوگیا تھا اور ان میں وہ خود اعتمادی نہ رہی تھی، جو ایک زندہ قوم کے جوانوں کے لئے ضروری ہوتی ہے۔
اس زمانے کے نوجوانوں کی اکثریت اپنی ذمہ داریوں سے بے بہرہ اور معاشرے کے مسائل سے لاتعلق ہوچکی تھی۔ متعدد نوجوان مغرب پرست ہوگئے تھے اور بہت سے مشرق کی پیروی کرنے لگے تھے۔ شہنشاہی دور میں جیلیں بھی انقلاب پسند جوانوں سے بھری رہتی تھیں۔
وصیت نامے کے اس حصہ میں امام خمینی نے یہ بھی لکھا ہے کہ گذشتہ چند صدیوں میں مسلمان قوموں کی پسماندگی کی ایک وجہ یہی ہے کہ وہاں کے نوجوانوں کو مثبت تعمیری فعالیت سے روکا گیا اور ایسی منصوبہ بندی کی گئی کہ وہ خود اعتمادی کھو دیں اور غیروں کے مطیع بن کر رہ جائیں۔
دوسرے اور اسی طرح مذکورہ تیسرے عنوان کے تحت امام خمینی نے نوجوانوں کی تعریف کی ہے کہ ان کے ذریعے ہی ایران میں انقلاب کامیاب ہوا ہے۔
امام خمنیی(ره) انقلاب اسلامی کی اصل کامیابی نوجوانوں میں تبدیلی کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ آپ یہ سمجھتے تھے کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد نوجوانوں کی اکثریت مثبت تعمیری فعالیت میں مصروف ہوگئی ہے اور مختلف شعبوں میں جوانوں کی شرکت بہت نمایاں ہے، جیسے پاسداران انقلاب اسلامی، سکیورٹی فورسز، ملک کی تعمیر نو کے ادارے اور خصوصا ملکی دفاع۔
اپنے وصیت نامہ میں امام خمینی نے نوجوانوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنا یہ کردار ادا کرتے رہیں اور ملکی امور سے دور نہ ہوں۔ امام خمینی کے وصیت نامہ کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ملک کے تمام امور نوجوانوں کے ذریعے ہی چلانے کے قائل تھے۔
نوجوانوں سے متعلق وصیت نامے کے چوتھے حصہ میں امام خمینی نے شہنشاہی زمانے کی یونیورسٹیوں کو فکری و عملی آلودگیوں سے پاک کرنے کی ضرورت پر بہت زور دیا ہے۔ آپ سمجھتے تھے کہ اُس زمانے میں یونیورسٹیوں کو اس انداز سے ڈھالا گیا تھا کہ وہ جوان نسل کو ادب و ثقافت اور خود اعتمادی کی قیمت سے نا آشنا کر دے اور انہیں مغرب و مشرق کے آقاؤں کی طرف مائل کر دے۔
جوانوں کی تربیت اور کردار سازی میں خاندان کے بعد سب سے اہم کردار تعلیمی اداروں کا ہوتا ہے۔ شہنشاہی دور کے تعلیمی اداروں میں تربیت نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں۔ تعلیمی ادارے تعلیم و تربیت سے زیادہ وقت گزاری کے اڈے تھے، جہاں استاد اور شاگرد کا مثالی رشتہ بھی ناپید ہوچکا تھا۔
نہ استاد اپنی ذمہ داریوں کو نیک نیتی سے نبھاتے تھے اور نہ ہی شاگرد اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا متمنی نظرآتا تھا۔ امام خمینی یہ سمجھتے تھے، اس طرح سے شہنشاہی اہلکار ان طالب علموں میں سے ایسے حکومتی کارندے چننے میں کامیاب ہوتے تھے، جو ان کے اشاروں پر چلیں اور یوں ان سے جو وہ چاہتے تھے، ان سے وہی عمل کرواتے تھے۔
اس طرح انہوں نے ملک کو بربادی ور تباہی کی طرف دھکیلا اور علماء کا طبقہ بھی کچھ نہ کرسکا، کیونکہ انہیں پہلے ہی کونے میں لگا دیا گیا تھا اور ان کے خلاف نفرت و حقارت کا طوفان بپا کیا جا چکا تھا۔
امام خمینی چاہتے تھے کہ یونیورسٹیوں میں پاکیزہ ماحول فراہم کرنے کے لئے جو اصلاحی عمل ہو رہا ہے، اس میں پوری قوم شامل ہو اور اپنا اپنا حصہ ڈالے۔ آپ نے اپنے وصیت نامے میں قوم سے کہا ہے کہ وہ جب بھی تعلیمی اداروں میں کوئی خرابی دیکھیں تو فورا آگے بڑھ کر اس کی اصلاح کے لئے اقدام کریں۔
آپ کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کی اصلاح قوم کے لئے ایک حیات بخش عمل ہے، لہذا خود نوجوانوں کا فریضہ ہے، جب بھی ان کے تعلیمی ادارے میں کوئی انحراف ان کی نظر سے گذرے تو وہ خود آگے آئیں اور فوراً اس کی اصلاح کریں کیونکہ تعلیمی ادارے کی اصلاح پوری قوم و ملت کی اصلاح اور ان کی نجات ہے۔(صحیفۂ امام خمینی ج ۲۱ ص ۴۱۸ و ۴۱۹)
امام خمینی کے عرفانی خطوط اور ان کی کتاب چہل حدیث سے برادر محترم سید صادق تقوی نے نوجوانوں کے نام آپ کے ایک پیغام کو مرتب کیا ہے، جسے معمولی تبدیلی کے ساتھ حسن اختتام کے طور پر اپنے مضمون میں درج کر رہا ہوں۔
اے میرے نوجوانو!
اِس بوڑھے باپ کی بات غور سے سنو۔۔۔۔!
تم نے کتنے سال اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور سوائے افسوس کرنے کے کچھ حاصل بھی نہ ہوا! تمہیں شیطان نے اپنے چنگل میں پھنسایا ہوا ہے اور دنیا میں شیطان اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا اور اگر تم یقین کرو اور تمہیں بڑھاپے تک پہنچنے کی مہلت مل بھی جائے تو اس وقت بڑھاپے میں جوانی کی اس نافرمانی کو سوچ سوچ کر سوائے کف افسوس ملنے اور پچھتاوے کے آنسو بہانے کے علاوہ تمہیں کچھ نہیں ملنے والا! یہ تو دنیا ہے اور آخرت میں رحمت الہی سے دوری، خدا کا تم سے کلام نہ کرنا، شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے دوری اور عذاب جہنم کے سوا تم کو کچھ نہیں ملنے والا!
اے میرے جوانو! ذرا ہوش کرو، عقل کے ناخن لو اور غور و فکر کرو کہ تم کیا کر رہے ہو اور اس نفسانی خواہشات سے تم کو کیا ملے گا؟!
تم نے اتنے سال جوانی کے ضائع کئے اور نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور شیطان کی مکمل اطاعت کی۔۔۔۔۔کیا ملا،،؟!
دو لمحے کا مزا اور ہمیشہ کا رہنے والا عذاب۔۔۔۔!!
لوٹ آؤ خدا کی طرف، توبہ کرو اور اپنی جو جوانی کے دن باقی ہیں، انہیں اللہ کی اطاعت میں گزارو اور روز قیامت ملنے والے شفاعت کے حصول کے عوامل کو اسی دنیا میں اللہ اور محمد و آل محمد کی اطاعت کے ذریعہ سے حاصل کرو! کوشش کرو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے۔ پہلے پہل عمل کرنا سخت ہوگا اور شیطان تم کو یہ کہے گا کہ خدا کی طرف قدم بڑھانا بہت مشکل اور سخت ہے اور تم سے یہ کام نہیں ہوگا! وہ تمہارے ارادوں کو کمزور بنانے کی کوشش کرے گا لیکن اگر ہمت مرداں ہو تو مدد خدا ضرور آتی ہے! سوچو، قدم اٹھاؤ اور خدا سے مدد حاصل کرو، وہ تمہاری مدد کرنے والا ہے اور تمہارے ہاتھوں کو تھام کر اپنی طرف کھینچ لے گا!
والسلام
روح اللہ الموسوی الخمینی
تحریر: سید امتیاز علی رضوی