رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ھندوستان کشمیر کو ۳حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبوں پر غور کر رہا ہے۔
بھارتی قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ھندوستانی کے آئین میں ایسی شقیں موجود ہیں جس کے تحت پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع کسی بھی ریاست کی سرحدیں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔
بھارتی رپورٹس کے مطابق کشمیر کو تقسیم کرنے اور نئی سرحدیں بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370ہے۔
آرٹیکل35-A کے برعکس آرٹیکل 370 آئین کا باضابطہ حصہ ہے اور ریاست کو خود مختارانہ حیثیت دیتا ہے۔ آرٹیکل35-A کو آئین میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔
یہ آرٹیکل ریاستی اسمبلی کو ریاست کے مستقل رہائشیوں کا تعین کرنے کی اجازت دیتا ہے اور مستقل رہائشیوں کو خصوصی حقوق اور مراعات دیتا ہے۔
ھندوستانی ماہرین کے مطابق یہ دونوں قوانین ابتدا میں عارضی طور پر بنائے گئے تھے۔ ان کے باضابطہ ہونے کی بنیاد کشمیر کی آئین ساز اسمبلی ہے جس نے ریاست کا آئین تشکیل دیا اور آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کی سفارش کئے بغیر اس نے خود کو تحلیل کر دیا۔
ھندوستانی رپورٹس کے مطابق آرٹیکل 370 میں آرٹیکل 368(1)کے ذریعے ترمیم کی جا سکتی ہے جس کیلئے لوک سبھا میں ایک تحریک پیش کرنے کی ضرورت ہے جس میں آرٹیکل 368(1) کے ذریعے آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جائے جو پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا طریقہ کار طے کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو یہ ترمیم منظور کرنا ہوگی اور اس کے بعد بھارت کی آدھی ریاستوں کو اس کی توثیق کرنا ہوگی اور یہ عمل مکمل ہونے میں کافی وقت لگے گا۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ھندوستانی پارلیمنٹ کو کشمیر کی سرحدوں کے ازسر نو تعین کا اختیار حاصل ہو جائیگا۔
اس کے بعد پارلیمنٹ آرٹیکل 3کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے ریاست کو مختلف حصوں میں تقسیم یا اس کی سرحدوں کا دوبارہ تعین کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل 370کی موجودگی میں یہ اقدام غیرقانونی ہو گا۔
ھندوستانی کی نیوز ایجنسی " آئی اے این ایس " کے مطابق لوک سبھا کے سابق سیکرٹری جنرل سبھاش کیشپ نے دعویٰ کیا کہ آرٹیکل 370 آئین کی خصوصی نہیں عارضی شق ہے اور مختلف عارضی، عبوری اور خصوصی شقوں میں عارضی شق سب سے کمزور ہوتی ہے اور فیصلہ صرف یہ کرنا ہوتا ہے کہ اس شق کو کب اور کیسے ختم کرنا ہے۔
بین الاقوامی قانون کے ممتاز پاکستانی ماہر احمر بلال صوفی نے کہا کہ بھارت کی طرف سے ایسی کوئی بھی کوشش جو مقبوضہ کشمیر کی موجودہ آئینی حیثیت کو تبدیل کرے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔
ایسا کوئی بھی اقدام چوتھے جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی ہو گی، حکومت پاکستان کو یہ معاملہ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کے سامنے بھرپور طریقے سے اٹھانا چاہئے۔
پاکستانی قانونی ماہرین کے مطابق ایسا کوئی بھی اقدام بین الاقوامی قانون اور حتیٰ کے بھارتی آئین کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔
واضح رہے کہ کشمیری عوام پر ایک عرصہ سے ظلم ہو رہا ہے وہاں کی عوام میں خوف کا ماحول پیدا ہو چکا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب سے موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے کشمیری عوام سخت مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اور خاص کر اس حکومت کا اسرائیل سے دوستی اور صیہونی لابی کی حمایت نے کشمیریوں پر ظلم کا سبب بن رہی ہے ۔
اس سے پہلے بھی کشمیر میں ھندوستانی فوج اسرائیلی فوج کے فارمولہ پر عمل کرتی آ رہی ہے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیر کی موجودہ حالات میں اسرائیل کا بہت پڑا ہاتھ ہے کیوں وہ مسلمان کا کھلا دشمن ہے اور جو بھی مسلمان کا دشمن ہے وہ اس کا دوست ہے ۔ اور کسی سے پوشیدہ نہی ہے کہ بی جے پی مسلمان کا کھلا دشمن ہے ۔