رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مصر کے دارالحکومت قاہرہ سمیت دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرین نے صدر عبدالفتح السیسی سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کردیا۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تحریر اسکوائر پر آدھی رات کو متعدد مظاہرین جمع ہوئے، تاہم پولیس نے جلد ہی صدر کے مخالفین کو منتشر کردیا۔
واضح رہے کہ 2011ء میں تحریر اسکوائر مصر میں حکومتوں کی تبدیلی کا مرکز بنا تھا۔ جولائی 2013ء میں اس وقت کے آرمی چیف اور موجودہ صدر عبد الفتح السیسی نے محمد مُرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
سابق صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ دینے کے بعد سے مصر میں احتجاجی مظاہروں پر پابندی ہے۔ سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکاروں سمیت دیگر فورسز کے اہلکاروں نے تحریر اسکوائر پر صدر سیسی کے مخالف مظاہرین کو اپنے حصار میں لے لیا۔
بتایا گیا کہ پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور 5 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ تحریر اسکوائر سے مظاہرین کی ویڈیو شیئر کی گئی، جس میں وہ سیسی چھوڑ دو، کے نعرے لگا رہے تھے۔
اس ضمن میں بتایا گیا کہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے مصری صنعت کار محمد علی کی ایماء پر مظاہرین باہر آئے اور صدر کے خلاف نعرے بازی کی۔
بتایا گیا کہ محمد علی اسپین سے مختلف ویڈیوز پوسٹ کررہے ہیں، جس میں صدر عبدالفتح السیسی اور فوج کے خلاف کریشن کے الزامات لگائے گئے۔
دوسری جانب مذکورہ ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد صدر الفتح السیسی نے گزشتہ ہفتے ایک کانفرنس کے دوران کرپشن کے الزام کو مسترد کیا اور کہا کہ وہ اپنے ملک اور عوام کے ساتھ سچے اور ایماندار ہیں۔