رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مسلم ہیومن رائٹس کمیٹی کا اجلاس تین گھنٹے تک لکھنو کی ممتاز یونیورسٹی میں سید ربی حسین ندوی کی زیر صدارت جاری رہا جسمیں نظر ثانی درخواست کا فیصلہ کیا گیا۔
کمیٹی کے ترجمان سیدقاسم رسول الیاس کا کہنا تھا کہ نظر ثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کمیٹی میں کہا گیا ہے کہ ایودھیا میں واقع مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ خود معترف ہے کہ سال ۱۸۵۷ سے ۱۹۴۹ تک تین گنبد والی بابری مسجد مسلمانوں کے کنٹرول میں رہی ہے۔
کمیٹی کے مطابق مجسمه لُرد رام (ھندو بھگوان) اور دیگر بتوں کو ۲۲ دسامبر ۱۹۴۹ میں یہاں لایا گیا جو غیر قانونی تھا ۔
لہذا ایک غیر قانون بت کو یہاں خدا کیوں مانا گیا ہے؟ کیونکہ ہندو عقیدے کے مطابق اس طرح کے بت کو بھگوان کا درجہ نہیں دیا جاسکتا (ہندووں کا کہنا ہے کہ یہ جگہ «لرد رام» بھگوان کی جنم گاہ ہے) ۔
کمیٹی اجلاس میں کہا گیا ہے کہ سال ۱۸۵۷ تا ۱۹۴۹ تک اگر یہ جگہ مسلمانوں کی ملکیت رہی ہے تو اب اس کو کس بنیاد پر ہندو ملکیت قرار دیا جارہا ہے؟
اجلاس میں قانون کے مختلف شقوں کا حوالہ دیا گیا ہے جسمیں کہا جاتا ہے کہ مسجد کی ملکیت کو منتقل نہیں کیا جاسکتا تاہم ان شقوں کے باوجود اس جگہ ہندو ملکیت میں قرار دیا گیا ہے ۔
واضح رہے کہ ایودھیا میں واقعہ اس مسجد کو سال ۹۳۵ قمری ہجری میں حکمران بابرجو مغل بادشاہ تھا کے دور میں بابری مسجد تعمیر کی گئی ۔