رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔
تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی میں مسلمانوں پر حملوں کیلئے دو ہزار سے زائد ہندوانتہا پسندوں کو باہرسے لایاگیا جنہیں شیو وہار میں ساتھ ساتھ واقع دو اسکولوں میں ٹھہرایا گیا۔
دونوں اسکولوں میں رات گئے ماسک اور ہیلمٹ پہنے مسلح دہشت گردوں نے قریب گھروں اوردکانوں پر پیٹرول بم بھی پھینکے۔
تحقیقاتی کمیشن کا کہنا تھا کہ صرف مسلمانوں کی دکانوں اورگھروں کو چن چن کرلوٹا اور جلایا گیا،۱۲۲ مکان، ۳۲۲ دکانیں اور ۳۰۰ گاڑیوں کو آگ میں پھونک دیا گیا جبکہ 4مسجدیں شہید، ۵ گودام، ۳ فیکٹریاں اور ۲ اسکول جلا دیے گئے۔ ان ۳ دنوں میں ہندوؤں کی دکانیں محفوظ رہیں۔ سب کچھ سوچی سجھی سازش تھی۔
اطلاعات کے مطابق دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ دہلی میں تشدد یکطرفہ منصوبہ تھا۔ فسادات کے لئے تمام اونچی عمارتوں پر قبضہ کیا گیا۔ ٹیم جہاں بھی گئی دیکھاکہ مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایاگیا۔
ذرائع کے مطابق بھارت کی وفاقی حکومت کی دہشت گردوں کو بھر پور حمایت حاصل تھی ۔ دہلی پولیس نے بھی بلوائیوں کی بھر پور مدد اور ان کی سرپرستی کی ۔ دہلی میں مسلم کش فسادات میں دہلی پولیس اور وفاقی وزارت داخلہ کا کلیدی کردار ہے۔
دہلی عوام نے بھارتی عدلیہ سے وزارت داخلہ اور دہلی پولیس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن بھارت کی موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کو انصاف ملنا بہت مشکل ہے کیونکہ قانون ایسے انتہا پسند لوگوں کے ہاتھ ميں آگیا ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں۔