22 May 2020 - 00:56
News ID: 442790
فونت
بات ۱۹۷۲ ء یا ۱۹۷۳ ء کی ہوگی جب میں نے ’’ بلٹز ‘‘ ہفتہ وار اخبار بمبئی کو اپنے شہر اُترولہ میں پڑھنا شروع کیا تھا۔ بلٹز کی تمام خبروں ،تبصروں و نگارشات اور کالموں سے زیادہ مجھے حسن عباس فطرت ؔ کا ’’سفرنامہ ‘‘ بہت ہی اچھا لگتا۔

تحریر: حجۃالاسلام مولانا سید شمشاد حسین رضوی اُترولوی 
صدر مجلس علمائے شیعہ نوروے و ڈائریکٹر توحید اسلامک سینٹر اوسلو

بات ۱۹۷۲ ء یا ۱۹۷۳ ء کی ہوگی جب میں نے ’’ بلٹز ‘‘ ہفتہ وار اخبار بمبئی کو اپنے شہر اُترولہ میں پڑھنا شروع کیا تھا۔ بلٹز کی تمام خبروں ،تبصروں و نگارشات اور کالموں سے زیادہ مجھے حسن عباس فطرت ؔ کا ’’سفرنامہ ‘‘ بہت ہی اچھا لگتا۔افریقہ سے متعلق اس مسافر اور گردش گر کی تحریر ہر کسی کو متاثر کئے بغیر نہ رکھ سکتی۔بولتی تحریر ، بیش بہا معلوماتی اور بے حد ادبی ۔

ایسا لگتا کہ فطرتؔ کے ہمراہ آپ خود ہیں اور وہ قصوں اور مناظر کی ’’کیمینٹری ‘‘کر رہے ہیں ۔ ! اسی بلٹز کے ساتھ ہفتہ وار اخبار ’’ نشیمن ‘‘بنگلور بھی اگرچہ ہمارے استاد محترم حضرت آیۃ اللہ مولانا سید علی رضو ی قمی گوپالپوری طاب ثراہ، بازار سے ہمیشہ مجھ سے منگواتے۔ استاد مرحوم ،دونوں ہفتہ وار اخبار کو پڑھتے ،مگر مجھے بلٹز ہی اچھا لگتا۔ کبھی کبھی اس میں حسن کمال اور خواجہ عباس صاحب کی بھی تحریر میرے لئے استفادہ کا سامان ہوتی۔ مگرنہ میں کسی سے پوچھ سکا اور نہ ہی اس تحقیق کی ضرورت ہوئی کہ یہ حسن عباس فطرت ؔ کون ہیں ؟

استاد محترم مولانا مرحوم کی طبیعت کی خرابی اور میرے انٹر میڈیٹ پاس کرنے کے بعد میں ۱۹۷۴ ء میں جب راہی وثیقہ عربی کالج فیض آباد ہوا اور وثیقہ میں برادرمحترم مولانا سید محمد جابر صاحب جوراسی کی رفاقت کام آنے لگی تو لکھنے لکھانے والوں کے تذکرے رہے اور پھر جب میں۱۹۷۶ ء میں ناظمیہ عربی کالج لکھنئو پہنچا تو سمجھ میں آیا کہ میں جس مسافر کی روداد مرتب پڑھتا تھا وہ عالم جلیل جناب مولانا سید حسن عباس فطرت ہلوری صاحب ہیں ، جو اسی جامعہ ناظمیہ کے ہونہار لکھنے والوں میں سے اور ممتاز الافاضل بھی ہیں ۔  نہ ہی انھیں دیکھا اور نہ ہی ان سے ملاقات ۔ اُترولہ اور ہلّور کا تیس چالیس کلو میٹر سے زیادہ کا فاصلہ نہ ہوگا مگر میرا بچپنا اور نوجوانی ایسے ہی ماحول میں گذراکہ زیادہ گھومنے پھرنے اور باہر نکلنے کا موقع نہ تھا اور نہ ہی کوئی خاص دلچسپی ۔ میرے دل میں ایک کسک اور تڑپ تھی کہ یہ ہلّوری اور میں اترولوی ، کیسے ان سے ملا جائے اور ان سے قریب سے کچھ سننے کو ملے مدت گزر جانے کے بعد ’’اہلبیت(ع) کانفرنس تہران ‘‘ میں روبرو ہو گئے جب کہ مجھے اس کانفرنس میںشرکت کی دعوت نوروے سے ملی تھی۔

مولانا سید حسن عباس ، قصبہ ہلور ضلع بستی کے رہنے والے ہیں ۔اُتر پردیش اور دیگر صوبوںمیں اضلاع کی تقسیمات کی وجہ سے ضلع سدھارتھ نگر سے ان کا قصبہ منسوب ہوگیا جیسے کہ میراقصبہ اُترولہ ، اب گونڈہ کے بجائے بلرامپور کی نذر ہو گیا ۔حسن عباس صاحب کے والد بڑے مذہبی تھے ، وہ بہت دیندار اور متقی کہ ان میں مذہبیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ، اور محتاط اتنا کہ زباں زدِ خلائق تھے ۔ چنانچہ ہلّور جیسی بستی میں جہاں پڑھے لکھے لوگوں کی کھیپ ہو اور آفیسر کے آفیسر ہوں وہاں کسی ہونہار بچے اور جوان کو علم، دین کی طرف لگانا کارے دارد ،اور طعن و پھبتیوں کی بارش کا سلسلہ ۔ انقلاب اسلامی ایران بھی اس وقت تک نہیں ہوا تھا کہ اب اس کی برکتوں سے شہروں اور دیہاتوں میں معممین کی کمی نہیں ۔ سید حسن عباس نے جب ا نٹر فائنل پاس کیا تو ان کے والد نے عربی اور دینی تعلیم کی طرف لگا دیا۔ ان کا بچپنا اور نوجوانی کا وقت بڑا ہی دلچسپ تھا کہ اپنے قصبہ کی لائبریری میں وقت گزارنا روزانہ کا وطیرہ تھا۔اس کتب خانہ میںمذہبی کم، مگر ادبی کتابیں زیادہ تھیں اسی لئے ان کا رجحان ادبیات کی طرف اسی وقت سے زیادہ تھا ۔

ان کے والد نے وثیقہ عربی کالج فیض آباد بھیجا اور پھرسلطان المدارس لکھنؤ گئے لیکن دل نہ لگا تو پھر ہلّورواپسی ہوئی۔ والد نے آخر کار انھیں علامہ سید سعید اختر رضوی گوپالپوری طاب ثراہ (مُبلّغ ِ افریقہ اور سابق ڈائریکٹر بلال مسلم مشن افریقہ )کے حوالے کر دیا ۔ ۱۹۴۹ ؁ء و ۱۹۵۰ ؁ء میںہلّور میں جب علامہ سعید اخترگوپالپوری کا قیام تھا اور وہ اپنے علمی فیوضات سے ہلّور کو افادہ فرما رہے تھے۔ چنانچہ دینی تعلیم میں حسن عباس نے دو تین سال تک شرف تلمذ انھیں سے کیا ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کی ذات اور کارناموں سے وہ بہت متاثر ہیں ۔وہ حسن عباس سے، مولوی حسن عباس ہونے لگے ۔ اس کے بعد جامعہ ناظمیہ لکھنئومیں درسیات ِعلوم دینی کو بڑھانا شروع کر دیا ۔ظاہر ہے مدرسہ کا ماحول انسانی زندگی پر نقوش ابھارتا ہے اور پھر طالب علمی رنگ لائی کہ لکھنے کی صلاحیت اور قلم کی جولانیاں دن بدن بڑھنے لگیں۔

مولوی حسن عباس کو لکھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ ہلور کی لائبریری نے ادبی ذوق دلایا تھا جو لکھنؤکے ماحول میں پروان چڑھنے لگا۔ مختلف ادبی رسالوں میں کچھ نہ کچھ لکھنے لگے اور پیسے کا چسکا بھی لگ گیا تو پھر اور میدان تحریر میں اُتر گئے۔سب سے زیادہ وہ ابوالکلام آزادؔ کی تحریر وں اور شخصیت سے متاثر تھے۔ وہ خاص طور سے مطالعہ میں نیاز ؔفتحپوری ، خواجہ ؔحسن نظامی ، عبدالماجدؔ دریاآبادی کو پسند کرتے اور اسی طرح کے لوگوں کی قلمی گل کاریوں سے اپنے چمنستان ِافکار و خیال کو سجاتے رہے۔انھوں نے مذہب سے ہٹ کر کوئی آزاد کام یا تحریر میں بے راہ روی اختیار نہیں کی لیکن وہ آزاد خیال مشہور ہونے لگے اور کسی حد تک آزاد خیال لوگوں میں ان کا نام بھی آنے لگا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں جاتے اور اپنی ادبی دلچسپی کی پیاس بجھاتے ۔ ظ ؔنصاری نے بھی ان کو خاصہ منفعل کیا تھا۔ لوگوں نے حسد ، بغض و عناد میں یہ آزاد خیالی کا تمغہ ،مولوی حسن عباس کو مفت میں دے دیا ۔ اس پروپگنڈہ کو خوب ہوا دی گئی اورکافی اُچھالا گیا۔ان کے نزدیک مذہبی رسالوں کا معیار ، اردو ادب اور قلمی حدود و قیود کے ہُنر سے خالی تھا یا کم تھا۔حسن عباس فطرتؔ نے ایک ممتازالافاضل مولوی ہونے کے باوجوداپنی ادبی سرگرمیاں اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔سرکار افتخار العلماء مولانا سعادت حسین خان صاحب اعلی اللہ مقامہ جو حسن عباس فطرت ؔ کے عماد الکلام کے استاد بھی تھے ، انھوں نے اس بات پرانھیں ٹوکا بھی تھا ۔مگر جب مذہبی تحریروں کا سلسلہ فطرت ؔ صاحب نے شروع کیا تو ان کے پاس ، تمام مذہبی رسالوں سے مضامین لکھنے کی فرمائش کے خطوط کے انبار لگنے لگے ۔

انھیں جامعہ ناظمیہ لکھنؤ میں سرکار مفتی اعظم طاب ثراہ (پرنسپل)کی شخصیت نے کافی متاثر کیا تھا تا ہم فیلسوف عصر مولانا سید ایوب حسین سرسوی مرحوم اورعربی ادیب مولانا سید رسول احمد گوپالپوری مرحوم کی علمی صلاحیتوں کی بھاری بھرکم شخصیتیوں نے اچھی چھاپ ڈالی تھی۔ سید العلماء مولانا سید علی نقی عرف نقن صاحب سے بھی کسب فیض کیا ۔ ان کی تمام مجلسوں میںبرابر و مرتب جاتے اور اسی وجہ سے ان کو نقّنی کہا جاتا تھا۔نقّن صاحب کے بارے میں مولانا سید حسن عباس فطرت ؔ صاحب کا خیال ہے کہ وہ ہر فن مولا تھے۔ بقول ان کے وہ ادب میں کام کرتے تو خلیلؔ جبران ہوتے اور اگر تفسیر میں ہوتے تو تفسیر صافی کے مولف کی طرح ہوتے۔ اسی طرح فقہ میں بھی بڑی شخصیت ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقّن صاحب اچھا لکھتے مگر ابوالاعلاء مودودیؔ والی بات نہیں تھی۔مولانا سید حسن عباس فطرت ؔ صاحب ، مذہبی لحاظ سے مولانا سید محمد ہارون صاحب زنگی پوری طاب ثراہ ، مولانا سید محمد رضی زنگی پوری طاب ثراہ ، مولانا سید راحت حسین گوپالپوری طاب ثراہ ، مولانا سید علی رضوی گوپالپوری طاب ثراہ کے عظیم الشان خدمات اور قلمی کارناموں کے بے حد مداح ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ بعد کی نسل کام کر رہی ہے اور لوگ اچھا لکھ رہے ہیں۔ ناظمیہ کی تعلیمی زندگی اور عمر وسن کے لحاظ سے اپنے جونیئر علامہ سیدذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ کے بے پناہ کام اور انتھک خدمات کو بہت سراہتے ہیں ۔

فطرت صاحب کی ادبی اور آزاد خیالی ہی کی وجہ سے فکر ونظر ہمیشہ انقلابی تھی۔ چنانچہ وہ شخصیت ِ رہبر جہان اسلام حضرت آیۃ اللہ العظمی ٰ سید روح اللہ الموسوی ،امام خمینی طاب ثراہ سے کافی متاثر تھے۔

جب امام خمینی نجف اشرف میں تھے ، اسی وقت سے ان کے بیانات کا ترجمہ کرنا اور ان کے بارے میں مضمون لکھنا شروع کر دیا تھا ۔ حج کے زمانے میں امام خمینی طاب ثراہ کے بیانات سے متاثر ہونا اور اس کا ترجمہ کرنا اپنا کام سمجھ رکھا تھا۔ جس وقت شاہ ایران نے ڈھائی ہزار سالہ جشن منایا تھا اس وقت بھی اس پروگرام کے خلاف روزنامہ ’’قومی آواز ‘‘ میں فطرت ؔ صاحب نے خوب خامہ فرسائی کی تھی۔اس کے بعد حضرت آیۃ اللہ العظمی سید عبد اللہ شیرازی اعلی اللہ مقامہ کے پوتے سید صادق شیرازی سے بمبئی میں دوستی ہو گئی۔ اور پھر ایران آنے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور وہاں حجۃالاسلام والمسلمین آقای شیخ حسن ابراہیمی مرحوم(جواس وقت طلاب غیر ایرانی کمیٹی کے سرپرست تھے) سے بھی بہترین تعلقات اور قریبی رابطہ ہو گیا ۔خانہ فرھنگ ایران دہلی کی کتابوں کے بھی ترجمے کئے۔ اس طرح ایرانی تنظیموں اور شخصیتوں سے دن بدن دوستانہ روابط ہوتے چلے گئے ۔

ماہانہ مذہبی مجلوں : ،اصلاح ، الواعظ و الجواد اور ہند وپاک کے دیگر مجلوں میں مضامین لکھنا آپ کی عادت میں شامل ہے۔ کتابوں پر تبصرے اور جوان لکھنے والوں کی تشویق و حوصلہ افزائی میں آگے آگے رہتے ہیں۔ بے باک قلم ہمیشہ سے رہا، قلمی خامیوں میں تیر و نشتر سے آپریشن ان کی ذہنی کاوش کی دلیل ہے ۔چاپلوسی اور خوش آمد طبیعت کو ہر گز پسند نہیں ۔ آپ کی تالیفات اور مقالوں کو دیکھا جائے تو پھر حقائق کو سمجھنے میں آسانی ہو گی چنانچہ جناب فطرت ؔصاحب ’’ افریقہ سُرخ و سیاہ ‘‘ میں ’’ماریشس ‘‘ کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :: ’’ ماریشس ‘‘ کی تعریف و توصیف میں ایسے نہ جانے کتنے فقرے ، اشعار ہیں جو دور کے سننے والوں سے شاعرانہ مبالغہ آمیزی کی چغلی کھاتے ہیں ۔ لیکن واکوا کا روح پرور پلیٹو اور پری تالاب ، بلیک ریور کی پُر پیچ و خواب آور گھاٹی ۔ شاماغل کی صد رنگی مٹی کا ٹیلہ ، کوہ گری کی دہلیزپر جبیں سائی کرتا ہوا نیلم روپی ساگر ، دیپ کے چاروں اور چمکتی ، مچلتی شاہراہوں کا نقرئی زنجیرہ ، جس کے دائیں بائیں ساٹھ ستر چھوٹی چھوٹی ندیوں کے درپن میں جھانکتی ، گنگناتی، گنےّ کی ہریالی اور اس کی گودوں میں ننھے ، سجیلے ،چوکور ،چوبی مکانات کی چھٹکی ہوئی چاندنی کو دیکھ لینے کے بعد ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ حقیقت افسانے سے زیادہ دلچسپ و عجیب ہے ۔ یہاں تو ہر مبالغہ دم توڑے گا مگر یہ کوئی ہل اسٹیشن ہے ،نہ برفیلی چٹانوں سے لدی ہوئی وادی بلند بلکہ جنوبی ہند جیسی گرم معتدل آب و ہوا کا حامل ہندوستان و افریقہ کے سمندر اور بحر ہند کا ایک جزیرہ ہے ۔ ‘‘ آگے لکھتے ہیں:
’’نیچی نظروں کو پلک جھپکا جھپکا کے اوپر اٹھائو تو جگہ جگہ بادلوں کی سرمئی شال ، و سبزے کا دو شالہ اوڑھے حدّ ِنظر تک دیو قامت جٹادھاری پہاڑ سمادھی جمائے نظر آئیں گے۔ قریب پہنچو تو یہ طلسم کھلے گا اور تمہیں بکھرے بکھرے ، صف بستہ، روٹھے روٹھے ، محو گفتگو پہاڑوں کا سلسلہ افق تا افق پھیلا ہوا دکھائی دیگا۔ ہری بھری گھاٹیوں ، سبز میدانوں میں غنچہ و گل کا ہجوم اور جزیرہ کے چاروں طرف ۵۰۰ سے ۷۰۰ فٹ تک اونچے سلسلہ ٔ کوہ کی پاسبانی ہے ، صاف و شفاف اور طویل راستوں پر سرخ پھولوں کا چراغاں ہے۔ تو ساحل سمندر پر دور دور تک سنکھ اور سیپ کے انبار و جمگھٹ نے کنار دریا کی آئینہ بندی کی ہوئی ہے ۔ فبای آلاء ربکما تکذبان ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱: ماخوذ از کتاب ارمغان مقالات، مجموعہ مضامین علامہ حسن عباس فطرت 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬