ڈاکٹر ساجد خاکوانی
تاریخی روایات کے مطابق خانہ کعبہ کی عمارت سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تیار کی تھی، کیونکہ جب وہ زمین پر اترے تو انہوں نے اﷲ تعالی سے پوچھا کہ کس طرف منہ کرکے تیری عبادت کروں ۔ اﷲ تعالی نے حکم دیا کہ ایک کمرہ بنالیں اور ادھر منہ کر کے میری عبادت کریں۔ طوفان نوح میں وہ کمرہ زمیں بوس ہوگیا جس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کمرے کی تعمیر نو کی۔
فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہ مقام دکھایا جو ٹیلے کی شکل اختیارکرچکاتھا،غالب گمان ہے کہ یہ وہی بنیادیں تھیں جنہیں حضرت آدم نے اپنے دست مبارک سے چناتھا۔حضرات ابراہیم اور اسمائیل علیہما السلام نے اس کمرہ کی تین دیواریں سیدھی رکھیں اور ایک دیوار گول بنائی جیسے ہمارے ہاں نماز کے لیے بنایا جاتے تخت پوش ہوتاہے جس کا قبلے والا رخ گول اور تین رخ سیدھے ہوتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اس گھر کا حج کرنے والے پہلے انسان تھے جنہوں نے کائنات کی اس سنت کو زمین پر تازہ کیاکہ ہر چھوٹا جسم اپنے سے بڑے جسم کا طواف کرتاہے چنانچہ انسان اپنے رب کی کبرائی کو مانتے ہوئے اس کے گھر کا طواف کرتا ہے۔
خانہ کعبہ پر ایک خانہ بدوش قبیلے ’’بنوجرہم‘‘نے قبضہ کر لیااور زم زم فروخت کرنے لگے ،آل اسمئیل نے اس پر غصہ کیااوور محسن انسانیت سے قبل کے قریبی دور میں ایک طویل جنگ کے بعد قریش نے خانہ کعبہ کی عمارت واگزارکرالی اور اسکی تولیت وخدمت کو اپنے خاندانوں میں تقسیم کر لیا۔وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی بدعات اور شرکیہ رسوم اس عبادت حج میں دخیل ہو گئیں یہاں تک کہ خاتم الانبیاء کا زمانہ آن پہنچا۔
خانہ کعبہ کا کمرہ انتہائی نشیب میں واقع تھااور دونوں طرف کی بلند و بالا چوٹیوں سے بارش کا پانی اس کی دیواروں کو زخمی کر دیتاتھا۔عمر مبارک جب پنتیس برس کی تھی تو قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرجدیدکافیصلہ کیا،پرانی دیواریں ڈھادی گئیںاور بنیادوں سے پتھر بھی اٹھالیے گئے یہاں تک کہ پتھروں کی ایک ایسی تہہ آئی کہ جس پر کدال مارنے سے پورے مکہ میںزلزلہ آجاتا،انہیں پتھروں پر نئی دیواریں چنی گئیںابھی تعمیرجاری تھی کہ سامان کم پڑ گیااور چوتھی گول دیوار بھی سیدھی کر دی گئی اور بقیہ حصہ ’’ حطیم‘‘جو خانہ کعبہ کااندونی حصہ تھا اسے چندفٹ دیوار کے بعدکھلا چھوڑ دیاگیا۔
محسن انسانیت نے حج و عمرہ کی بدعات اور شرک و جہالت سے بھری رسوم کوختم کیا اور سنت ابراہیمی کے مطابق حج کی عبادت کی تاسیس نوکی۔ بعثت کے بعد آپ نے ایک ہی حج کیا جسے آخری حج کہتے ہیں،اب قیامت تک اسی طرح ہی حج کرنا درست رہے گا اور اس میں کسی کی تبدیلی و ترمیم کی گنجائش نہیں ہوگی۔
شریعت محمدی نے حج وعمرہ کے لیے میقات کی حدود کا تعین کیا ہے پس جو شخص بھی حج یاعمرہ کی نیت سے حرم جانا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ میقات کی حدود سے قبل ہی احرام باندھ لے ۔ احرام کے لباس میں میقات کی حدود میں داخل ہونے والے اﷲ تعالی کے مہمان گردانے جاتے ہیں۔
سنی فقہ کے مطابق پاکستان سے جاتے ہوئے یہ حدود سمندر کے اندر ہی شروع ہو جاتی ہیں چنانچہ جب حجاج کرام حج و عمرہ کے لیے بحری جہاز سے جایا کرتے تھے تو کم و بیش ایک ہفتہ کے اس بحری سفر میں جہاز کا کپتان بارہ گھنٹے قبل ہی اعلان کرنا شروع کر دیتاتھا کہ اتنے بجے ہم میقات کی حدود میں داخل ہو جائیں گے ۔ اب جبکہ ہوائی سفر کے ذریعے چند گھنٹوں میں منزل پرپہنچنا آسان ہو گیاہے تو راستے میںا حرام باندھنابہت مشکل بلکہ اتنے زیادہ مسافروں کے لیے ہوائی جہازکے غسل خانوں میں احرام کے مرحلے سے گزرنانا ممکن سا ہوجاتاہے چنانچہ پاکستانی حجاج کرام احرام باندھ کرہوائی جہاز میں بیٹھتے ہیں جبکہ راستے میں کپتان اعلان ضرور کر دیتاہے کہ ہم میقات کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں ۔
احرام باندھنے کے لیے پہلے غسل کیاجاتا ہے اسکے بعد مرد حضرات ایک ان سلی سفید چادر نیچے اور ایک ان سلی سفید چادر اوپر لے لیتے ہیں جبکہ خواتین اپنے لباس کے اوپر ہی ایک سفید رومال سر پر اوڑھ لیتی ہیں ،احرام کے لباس میں جوتی شامل نہیں ہے چنانچہ جوتی نہیں پہن سکتے یا کم از کم ایسی جوتی نہیں پہن سکتے جس میں پاؤں ڈھک جاتے ہوں تلووں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے صرف ہوائی چپل پہننے کی اجازت ہی۔ اس طرح احرام بندھ جاتاہے اور شریعت کی اصطلاح میں کہاجاتا ہے اس فرد نے وقتی طور پر اپنے اوپر بہت سے جائز امور کو حرام کر لیاہے چنانچہ ان ممنوع امور میں سے کسی کا صدور ہو جائے تو حاجی کو جرمانے میں دم دینا پڑتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک قربانی کرنی پڑتی ہی،حج یا عمرہ کے بعد احرام اتار دینے سے یہ پابندیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔احرام باندھتے ہی زبان پر تلبیہ’’لبیک اللھم لببک۔۔۔۔‘‘ شروع کر دی جاتی ہے اور سارے سفر میں کثرت سے اسکا ذکر کیاجاتاہی،یہاں تک کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی تلبیہ کا ذکر بند کر دیاجاتاہے اور دعائیں مانگنا شروع کر دی جاتی ہیں۔
حالت احرام میں جسم پر یا کپڑوں پر خوشبو لگانا،خوشبووالا صابن استعمال کرنا،زعفران کا استعمال اور تیزخوشبووالے کپڑے یا دوائیوںکااستعمال بھی منع ہی،شکار کرنا یا شکار میںمدد کرنا بھی ممنوع ہو جاتا ہے یہاں تک کی اپنے ہی جسم پر رینگنے والی جوئیں یا تنگ کرنے والے مکھی یا مچھروغیرہ کو مارنا بھی منع ہے ،حالت احرام میں جنسی افعال اور جنسی گفتگو پر بھی سختی سے پابندی عائد کر گئی ہے اس کے علاوہ لڑائی جھگڑا اور نافرمانی کا کوئی بھی کام اس حالت میں سختی سے منع ہے ۔احرام کی حالت میں منہ ڈھانپنایا سرڈھانپنا بھی منع ہے چنانچہ تیزدھوپ سے بچنے کے لیے چھتری تولی جا سکتی ہے لیکن سر کو ڈھانپنے کی اجازت نہیں ہی۔ خواتین بھی اپنے چہرے کو نہیں ڈھانپ سکتیں تاہم بہت مجبوری کی حالت میں اسکی جزوی اجازت ہی۔احرام باندھاہواتوحدودحرم کے اندر کے درخت ،پتے اور گھاس بھی توڑنے کی اجازت نہیں ہے نیزاپنے بال اور ناخن بھی نہیں کاٹ سکتی۔نقاب،دستانے اور جرابیں پہننے کی بھی اجازت نہیں اور احرام کی حالت میں اگر سو جائیں تو بھی چادر نہیں اوڑھ سکتی۔ان سب امور میں سے کچھ بھی ہو جائے تو جرمانے کے طور پر قربانی کرنی پڑتی ہے۔
حالت احرام میں صابن سے غسل کیاجاسکتا ہے یاصرف سر بھی دھویاجاسکتاہے ،تیل یا لوشن بھی استعمال کیاجاسکتاہی،خوشبو سونگھنے کی اجازت بھی ہے یعنی کوئی پھول یا کوئی اور خوشبودار چیز سونگھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔احرام باندھ کر انگوٹھی ،عینک،گھڑی اور بیلٹ وغیرہ بھی استعمال کی جا سکتی ہے ۔احرام کی چادروں سے پسینہ یا لمبے سفر کے باعث بوآنے لگے تو اسکو تبدیل کر لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔سر اوربدن کھجایاجاسکتاہے اور اگر کوئی مچھر مکھی یاجوں تنگ کر رہی ہو تا انہیں پکڑ کر زمین پر ڈال دیاجائی۔احرام کی حالت میں دوائیاں کی استعمال کی جاسکتی ہیں اور آنکھوں اور کانوں میں دوائی ڈالی بھی جاسکتی ہے اورمرہم پٹی بھی کرانے میں کوئی حرج نہیں۔حالت احرام میں لڑنا اگرچہ منع ہے لیکن دوران تدریس بچوں کو سرزنش کے طور پر سزا دینے سے احرام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔خواتین دواران احرام ہلکے پھلکے زیورات اور پھولدار کپڑے بھی پہن سکتی ہیں ،خواتین کو بند جوتوں اور جرابوں کے پہننے کی بھی اجازت ہے اور احرام کا رومال دوران وضو سر مسح کے لیے کھول لیاجاتا ہے اور وضو کر کے پھر بطور احرام باندھ لیاجاتاہے۔
قرآن مجید نے حاجیوں کے لیے تقوی کوبہترین زاد راہ بتلایا ہی،احرام کے دوران اگر جملہ امور کی پابندی کر بھی لی لیکن تقوی اختیار نہ کیاتو حج و عمرہ کا صحیح فائدہ نہیں ہوا۔اتنالمباسفر اور بے پناہ اخراجات کے بعد زندگی میں کوئی واضع تبدیلی آنی چاہیے ،رزق کے ذرائع اگر حلال نہیں تھے یا مشکوک تھے اب اس سفر سعادت کی برکت سے ان سے توبہ تائب ہو جانا چاہیے ،حج یا عمرہ سے پہلے زبان پر مکمل کنٹرول نہیں تھا اور وقتا فوقتااول فول اور اخلاق بافتہ گفتگو زبان سے نکلتی رہتی تھی تو اب اس سے احترازکرنا چاہیے ،حج و عمرہ کے سفرسے قبل اگر رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ ناچاکیاںچل رہی تھیں اور تعلقات میں وسیع خلیج اور شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں در آئی تھیں تو اس مقدس عبادت سے واپسی پر سب سے تعلقات میں واضع اور خوشگوار تبدیلی آجانی چاہیے ،اگر حج و عمرہ پر جانے سے پہلے جھوٹے مقدمات دائر کیے ہوئے تھے اور محض دوسروں کو پریشان کر نے کے لیے پرچہ بازی رچائی جایاکرتی تھی تو اب اتنے اچھے اچھے مقامات کی زیارت کر کے اس عمل بد کو ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہہ دینا چاہے اورحج و عمرہ سے قبل فرائض کی ادائگی میں سستی رہ جاتی تھی،زکوۃ وعشرکی ادائگی میں دل تنگ ہواجاتاتھاتو اب اس کی پابندی میں وہم کی حد تک احتیاط کی جانی چاہیے ۔
المختصر یہ کہ جہاں ﷲ تعالی کے یہاں حاجی کا حج لکھا جائے وہیں اس دنیا کے معاملات میں بھی اس حاجی کے عمل و کردار اور گفتگوسے پتہ چلے کہ اس حاجی کی زندگی میں ان مقدس مقامات کی زیارت اور اس سفر سعادت نے خوب خوب اپنی حسن رنگت گھول دی ہے اور یہ حاجی اب خالصۃ للہ تعالی کے رنگ میں رنگا گیا ہے اورآخری نبی کی سنتوں سے اسکی زندگی آراستہ و پیراستہ ہو چکی ہے۔
ان تبدیلیوں کے ساتھ حج و عمرہ اپنی حقیقت میں بھی حج و عمرہ ہو ں گے اور اپنے اثرات کے اعتبار سے بھی حج و عمرہ ہوں گی۔اﷲ تعالی حاجیوں کے حج و عمرہ کو قبول فرمائے اور انہیں اس عبادت کے عملی تقاضے پورے کرنے کی توفیق دے ۔