20 August 2016 - 17:46
News ID: 422728
فونت
گلگت کے ڈپٹی سپیکر نے کہا : پاکستان کا بچہ بچہ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے قابل ہے اور مودی سرکار کو چاہیے کہ وہ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کی غلطی نہ کرے۔
جعفراللہ خان

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کی جانے والی ہرزہ سرائی کے خلاف گلگت بلتستان بھر میں مذمتی ریلیاں نکالی گئیں۔

گلگت شہر میں ایک بڑی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر جی بی اسمبلی جعفراللہ خان نے کہا : ملک دشمن قوتیں پاکستان کے عوام کی ہمدرد نہیں ہو سکتی ہیں اور کھوکھلے بیانات دے کر جھوٹی ہمدردی جتانے کی بجائے مودی سرکار کو اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر ڈپٹی سپیکر نے کہا : پاکستان کا بچہ بچہ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے قابل ہے اور مودی سرکار کو چاہیے کہ وہ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کی غلطی نہ کرے۔ پاکستان کی فوج اس قابل ہے کہ دشمن کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے۔

انہوں نے کہا : پاک فوج کی قربانیوں کی بدولت دشمن کی تمام سازشیں ناکام ہو رہی ہیں۔ اس ریلی میں عوام کی ایک کثیر تعداد نے بھی شرکت کی اور کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

اس موقع پر فلگ شگاف نعرے بھی بلند کئے گئے اور وزیراعظم ہندوستان کے پتلے بھی نذر آتش کئے گئے۔ ریلی سے پارلیمانی سیکرٹری اقبال حسن، پولیٹیکل ایڈوائزر برائے وزیراعلٰی گلگت بلتستان شمس میر و دیگر نے بھی خطاب کیا اور بھارت سرکار کی پرزور مذمت کی۔

اسی طرح گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع میں بھی اس سلسلے میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے، جس میں مقررین نے کہا : مملکت خداداد پر کوئی بھی آنچ آئے تو گلگت بلتستان کی غیور عوام اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صف اول میں کھڑے ہونگے اور کسی بھی قسم کی بیرونی سازش اور جارحیت کا ڈٹ کر جواب دیں گے۔

اسکردو میں جامع مسجد سے یادگار شہداء اسکردو تک ایک ریلی بھی نکالی گئی۔ استور میں کلب علی چوک پر بھی ایک عوامی اجتماع ہوا جہاں پر تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عوام نے شرکت کی۔

چلاس سمیت دیگر تمام اضلاع میں بھی مودی کے بیانات کی مذمت کے لیئے عوام نے مودی کے پتلے نذر آتش کئے اور ہندوستان کی حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬