رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حالیہ ہلاکتوں کے خلاف کشمیر بھر میں عوامی احتجاجی لہر دبانے کیلئے پولیس کی جانب سے جہاں نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ تیز کیا گیا ہے ۔
صوبائی حکومت نے ۱۶۹ افراد کی لسٹ تیار کر لی ہے جن پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا جارہا ہے۔ جن میں مزاحمتی قائدین کے ساتھ ساتھ کمسن نوجوانوں کی کافی تعداد بھی شامل ہے۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد احتجاجی مظاہروں، تشدد، پولیس تھانوں اور قابض فورسز کیمپوں پر ہوئے حملوں کے سلسلے میں پولیس نے ایک ہزار نوجوانوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے ۱۶۹ افراد پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
موصولہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ اس لسٹ کے علاوہ بیشتر حریت کارکنوں اور لیڈروں کو بھی ’’پی ایس اے‘‘ کے تحت جیل بھیج دیا جائے گا۔
اس ضمن میں ۱۸ اگست کو ڈی جی پولیس "کے رجندار" نے آئی جی پی کشمیر جاوید مصطفٰی کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں ان کو ہدایت دی گئی ہے، کہ وہ لسٹ میں شامل افراد کی گرفتاری کو یقینی بنائیں تاکہ انہیں اسے ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا جائے۔
جس کے بعد پولیس ہیڈ کوارٹر سے تمام اضلاع کے ایس پی ایز کو مطلوب نوجوانوں کی لسٹ بھیج دی گئی ہے۔
اس دوران بیشتر گرفتار نوجوانوں کے والدین کی جانب سے پولیس پر انہیں ہراساں کرنے اور ان گرفتاریوں سے مالی فوائد حاصل کرنے کا نیا سلسلہ شروع کرنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔
جنوبی کشمیر کے لوگ خصوصاً پولیس پر گرفتار نوجوانوں کو رہا کرنے کیلئے موٹی رقمیں وصول کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ مقامی لوگوں نے بتایا کہ پولیس نے گرفتاریوں کا نیا سلسلہ ایک نئے بزنس کے بطور اختیار کیا ہے۔
مقامی لوگوں کا یہ بھی الزام ہے کہ پولیس انہیں اپنے بچے انکے حوالے کرنے پر مجبور کررہی ہے۔