رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرتضی سرمدی نے جمعہ کے روز تہران میں نامہ نگاروں سے بات چیت میں امریکہ کے منتخب صدر کے نامزد وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے، برسراقتدار آنے کے بعد ایٹمی معاہدے پر نظرثانی کے بارے میں دیے گئے حالیہ بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ نقطہ نظر کسی بھی طرح کی بین الاقوامی حمایت اور جواز کا حامل نہیں ہے۔
مرتضی سرمدی کا کہنا تھا کہ ایٹمی معاہدہ ایران اور چھ ملکوں کے درمیان ہے اور یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی اس معاہدے کی توثیق کی ہے۔ اس لیے بعض امریکی شخصیات اور حکام کی جانب سے اس پر نظرثانی کی بات کرنا لاحاصل ہے۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ نے اطمینان ظاہر کیا کہ جو لوگ امریکہ میں بر سراقتدار آئیں گے ان کے پاس حقائق کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے اور وہ اپنی کوششیں ایٹمی معاہدے پر زیادہ سے زیادہ بہتر، صحیح اور فوری عمل درآمد پر مرکوز کریں گے ۔
یورپ اور امریکہ کے امور میں ایران کے نائب وزیر خارجہ مجید تخت روانچی نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی معاہدے پر نظرثانی کی ہرگز اجازت نہیں دے گا اوریہ نہ صرف ایران کا بلکہ گروپ پانچ جمع ایک کے ارکان کا موقف ہے۔
جنوری دو ہزار سولہ سے ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد سے امریکہ نے اس معاہدے کے ایک فریق کی حیثیت سے ہمیشہ خلاف ورزی کی ہے اور اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے۔امریکی کانگریس میں ایران پر دس سالہ پابندیوں کے قانون میں توسیع ایٹمی معاہدے کی تازہ ترین خلاف ورزی ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰