تحریر: ثاقب اکبر
گذشتہ دنوں (19 جنوری 2017ء کو) البصیرہ میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس سے دیگر احباب کے علاوہ ہمارے عزیز دوست خواجہ شجاع عباس نے بھی خطاب کیا۔ ان کے کئی ایک اظہاریوں پر لے دے کا سلسلہ رہتا ہے، بعض پر اختلاف رائے بھی ہوتا ہے، البتہ گاہے ان سے عجیب دانش کا ظہور ہوتا ہے، مذکورہ نشست میں بھی ان کے اظہارات کا سلسلہ کچھ ایسا ہی رہا۔ ان میں چند ایسی باتیں تھیں، جنھیں ہم اپنے قارئین تک پہنچانا چاہیں گے۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ یورپ نے طے کر لیا ہے کہ اس کے عوام فیصلہ کریں گے کہ حکومت کس کو کرنا ہے، مگر مسلمان ابھی تک یہ مسئلہ طے نہیں کرسکے۔ ان کی رائے تھی کہ اگر ہم اپنی مشکلات پر قابو پا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی یہ طے کرنا ہے کہ حکومت بنانے کا فیصلہ ہمارے عوام کریں گے۔ وہ عالم اسلام میں موجود آمریتوں اور بادشاہتوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ خواجہ شجاع عباس نے کہا کہ حکمرانوں کے لئے بھی حدود و قیود ہونا چاہئیں۔ ہر سیاسی نظام میں گنجائش ہونا چاہیے کہ عوام اگر اسے تبدیل کرنا چاہیں تو کر سکیں۔ ان کی رائے تھی کہ عوام کی مرضی اور خواہش کو راستہ ملنا چاہیے۔
مثال کے طور پر ہم عرض کریں گے کہ برطانیہ کے عوام نے یورپی یونین کو چھوڑنے کے حق میں فیصلہ کیا ہے۔ یہی عوام پہلے یورپی یونین میں شامل ہونے کے حق میں فیصلہ دے چکے تھے۔ ان کی رائے تبدیل ہوئی تو اس کے لئے قانون میں گنجائش موجود تھی۔ ریفرنڈم کے ذریعے ان کی نئی رائے سامنے آگئی۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ ہمیں بنیادی سوالات کو حل کرنا ہوگا۔ ہمیں اس کی توقع حکمرانوں سے نہیں رکھنا چاہیے۔ اہل علم و دانش کو آواز اٹھانا چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت سازی کے لئے ہم نے اللہ تعالٰی اور نبی پاکؐ کا پیغام صحیح طور پر نہیں سمجھا۔ ہمیں اپنی طرز حکمرانی کا جائزہ لینا ہوگا۔ بحر روم کے ایک طرف کے حکمران اپنے آپ کو عوام سے برتر سمجھتے ہیں، جبکہ دوسری جانب انسانیت کی تحریم اور عزت ہے۔ عوام کو ان کے حقوق حاصل ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جبر اور بندوق کے ذریعے کسی کو حکومت کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا نظام ہونا چاہیے کہ جس میں حکمران اپنے اختیارات سے باہر نہ جائے اور اگر وہ ایسا کرے تو پھر اس کا مواخذہ کیا جائے۔ کسی گروہ یا خاندان کو حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ عوام پر اپنی مرضی مسلط کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ خواجہ صاحب کی یہ باتیں کسی خاص گروہ اور کسی خاص ملک کے لئے نہیں بلکہ کلیات اور اصولوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثریت پر مرضی مسلط کرنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ شجاع عباس نے تاریخ سے اس حوالے سے ایک ایسی مثال دی، جو گویا بالکل سامنے کی ہے، لیکن اس کی طرف اس پہلو سے توجہ نہیں دی جاتی، جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے حوالے سے اگر ایک رخ سے سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام نمونہ ہیں تو دوسرے پہلو سے اتنا ہی بڑا نمونہ امام حسن علیہ السلام بھی ہیں۔ امام حسینؑ نے ظلم و استبداد اور انحراف کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا، جبکہ امام حسنؑ نے دیکھا کہ اب اکثریت ان کا ساتھ دینے سے اجتناب کر رہی ہے، چاہے اس کی وجوہات جو بھی تھیں تو وہ حکومت سے دست بردار ہوگئے۔ ان کی یہ بات بہت اہم تھی اور اپنے اندر ایک جہان معنی سموئے ہوئے تھی۔ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ امام حسنؑ کو وہ فوج ورثے میں ملی تھی، جس سے امام علی ؑ کہتے تھے کہ گرمیوں میں تم گرمی کی شکایت کرتے ہو اور سردیوں میں سردی کی، آخر تم کس موسم میں لڑو گے۔
جب اکثریت خود مادیت کے دام تزویر میں گرفتاری کی آرزو مند ہو جائے، جب اعلٰی اصولوں اور عزت و غیرت کے بجائے سکوں کی کھنکھناہٹ دل کو لبھانے لگے اور جب چند روزہ دنیاوی زندگی نعمات اخروی سے عزیز تر ہو جائے، ہاں جب اکثریت کسی اور کے دامن سے وابستہ ہونے پر آمادہ ہو جائے، وجوہ و اسباب سے قطع نظر تو رہبر دلسوز کو وہی راستہ اختیار کرنا چاہیے جو فرزند رسول امام حسنؑ نے اختیار کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی عالم اسلام کے بہت سے حصوں میں یہی صورت حال درپیش ہے۔ اسلام، اسلامی تحریک اور انقلاب کا نعرہ لگانے والے مستبد شاہوں اور شاہی نمائندوں کا طواف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ظلم ہوتے دیکھتے ہیں، اشرفیوں اور سکوں کے عوض ضمیروں کی خرید و فروخت کا مشاہدہ کرتے ہیں، لیکن خدا جانے کس ’’تاویل عقلی‘‘، ’’حیلۂ شرعی‘‘ اور ’’ظواہر مسلکی‘‘ سے فریب کھا جاتے ہیں۔ ایک جگہ ظلم اور کرپشن کے خلاف نعرہ زن ہیں، جمہوریت کی وکالت کرتے ہیں، لیکن دوسرے مقام پر آمریت یا بادشاہت کے بارے میں چپ سادھے رہتے ہیں۔ مسلکی تفریق کی نفی کرنے والے اور اتحاد امت کے بہت سے داعیوں کے دامن بھی اس بلائے خاردار سے الجھے ہوئے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ برادر شجاع عباس نے بہت سی باتیں کیں، لیکن عالم اسلام کی ایک مشکل ’’نفاق‘‘ کو نظر انداز کرگئے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ استاد مرتضٰی مطہری نے ایک مقام پر لکھا تھا کہ گذشتہ انبیاء پر جو کتابیں اتریں، ان میں دو طرح کے گروہوں کا ذکر ہے، ایک مومن اور دوسرا کافر۔ لیکن آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنے والی کتاب میں تین طرح کے گروہوں کا ذکر ہے، ایک مومن، دوسرا کافر اور تیسرا منافق۔ ان کی رائے تھی کہ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اب آئندہ دین اور اس کے حقائق و معارف اور مسلمانوں کو منافقوں اور منافقت سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ نفاق دو روئی کو کہتے ہیں اور منافق دو چہروں والا ہوتا ہے۔ جیسے کسی کے ماتھے پر مسلمان نہیں لکھا ہوتا، اسی طرح منافق کے ماتھے پر ’’منافق‘‘ نہیں لکھا ہوتا۔ عادات و اطوار، کردار و اخلاق ہی گواہی دیں گے کہ کون کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ تاریخ ایک واقعے کو بیان کرتی ہے۔ ہم تاریخی کرداروں کے ناموں کا ذکر کئے بغیر اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کیونکہ آزادؔ انصاری کے بقول
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے
ایک ’’بادشاہ‘‘ سے کسی نے کہا کہ آپ نے فلاں کو اتنے لاکھ درہم عطا کئے ہیں، مجھے بھی عطا کریں تو ’’بادشاہ‘‘ نے بے ساختہ کہا کہ اس کا تو میں نے ایمان خریدا ہے۔ ادھر سے عرض کیا گیا: حضور! میرا بھی ایمان خرید لیں۔ جب تک ایسے خریدار اور ایسے فروش کار محترم مسلمان سمجھے جاتے رہیں گے، کوئی بڑی اور مثبت تبدیلی عالم اسلام میں ہرگز رونما نہیں ہوگی۔ میں جانتا ہوں کہ اہل فکر و دانش جب تک حق گوئی سے کام نہ لیں، سچائیاں لوگوں تک نہ پہنچائیں، دین کی آفاقی صداقتوں کی طرف دعوت نہ دیں اور فریب کاروں کے چہروں سے نقاب نہ پلٹیں، کاروان رشد و ہدایت آگے نہیں بڑھ سکتا۔ البتہ جو لوگ اس راہ پر گامزن ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ راستہ بہت کٹھن ہے، جسے ایمان سے مزین زندہ و پائندہ عزم ہی سے پاٹا جاسکتا ہے۔ اسی کی طرف استاد شہید باقر الصدر کی با ایمان اور باوفا بہن شہیدہ سیدہ بنت الہدیٰ نے اپنی ایک عربی نظم میں اشارہ کیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے آزاد اردو ترجمے پر آج کے اس مضمون کا اختتام کیا جائے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰