تحریر: ثاقب اکبر
جب ہم نے ایک وسیع تر پلیٹ فارم اور حکمت عملی کی تشکیل پر بات شروع کی تو ایران اور پاکستان میں کئی نشستیں ہوئیں۔ دلائل سے قائل ہو جاتے تھے اور یہی ایک صاف دل انسان کی خوبی ہے کہ وہ جب دلیل کو درست اور قوی پاتا ہے تو اسے تسلیم کرلیتا ہے، لیکن پھر ایک روز کہنے لگے کہ اس پروگرام کو نتیجہ خیز کرنے کے لئے بیس سال مزید درکارہوں گے۔ یہ رفیق فقید روح سعید برادر عزیز ڈاکٹر محمد علی شہید کی بات ہو رہی ہے۔ انھوں نے سچ کہا تھا ’’بیس سال‘‘ بالکل درست، اس لئے کہ جب میں نے پلٹ کر ماضی میں جھانکا تو بیس سال گزر چکے تھے۔ شاید ہم 1974ء میں ملے تھے۔ 1974ء میں جب رجب المرجب کا مہینہ آیا تو بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے جوار میں واقع علی پارک میں یوم علی ؑ کی مناسبت سے جلسوں کا سلسلہ جاری تھا۔ وہاں پہلی مرتبہ برادر فیض بخش سے ملاقات ہوئی تھی۔ ملک فیض بخش جو بعد میں مفتی جعفر حسین اعلٰی اللہ مقامہ کے داماد ہوگئے اور حال ہی میں ان کی اہلیہ محترمہ کا لاہور میں انتقال پرملال ہوا ہے۔ اللہ ان پر اپنی رحمت فرمائے بحق طٰہٰ و یٰسین و آلہ الطیبین۔ فیض بخش نے مجھ سے آئی ایس او کا ذکر کیا اور اس میں شامل ہونے کی دعوت دی اور پھر جلد ہی ڈاکٹر محمد علی شہید سے ملاقات ہوگئی۔
یہ ملاقات آئی ایس او کے دفتر میں ہوئی، جو اس وقت دربار داتا صاحب کے عقب میں ریٹی گن روڈ پر ہوتا تھا۔ وہاں ’’انجمن وظیفہ سادات و مومنین‘‘ کی ایک بلڈنگ تھی۔ اسی میں یہ دفتر واقع تھا۔ عہدے دار تو اور بھی بہت تھے لیکن اس دفتر اور تنظیم کی روح بے قرار اور ہمہ دم آمادہ و جہد و پیکار ڈاکٹر محمد علی ہی تھے۔ اپنا بنانے کا ہنر انہیں ودیعت کیا گیا تھا۔ وہ خود تو بے آرام و بے قرار رہتے ہی تھے، دوسروں کے دل کو بھی دھڑکنا اور لہو گرم رکھنا سکھا دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ بغیر کسی عہدے کے بھی سب سے اہم رہے۔ 1975ء میں راقم نے ایم اے او کالج لاہور میں آئی ایس او کا یونٹ قائم کیا۔ پھر رفاقتوں اور عزیمتوں کا یہ سلسلہ شروع ہوا، جو بیس سال کی بھرپور تاریخ پر مشتمل ہے۔ جب 1994ء کے آخر میں قم المقدسہ میں آئندہ کی حکمت عملی کی بات ہو رہی تھی تو انہی بیس برسوں پر ان کی نظر تھی۔ بیس برس رفاقت اور مشترکہ جدوجہد کو گزر چکے تھے۔
اس دوران میں آئی ایس او پھیل کر ملک گیر ہوگئی۔ جب طلبہ تنظیموں پر بابندیاں عائد کی گئیں اور مارشل لاء اپنی استبدادی اور جبروتی شکل میں ہر طرف پنجے گاڑے جا رہا تھا، جب رسم چلی تھی کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے تو ایسے میں ڈاکٹر محمد علی نقوی آئی ایس او کے صدر تھے۔ آئی ایس او کی توسیع کا مرحلہ تو تھا ہی مشکل، جہاں جہاں موجود تھی وہاں اسے باقی رکھنا اور تنظیم کے نام سے کام کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ اس کے لئے ہم نے مشورے کئے اور متبادل راستے تلاش کئے۔ ساتھیوں سے کہا گیا کہ وہ امامیہ لائبیریری یا امامیہ کتاب خانہ جیسے ناموں سے استفادہ کریں۔ ڈاکٹر صاحب نے مختلف ڈویژنوں کے عہدے داروں اور ڈویژنل صدور سے کام جاری رکھنے کا کہا۔ مسجد جعفریہ ملتان روڈ لاہور میں مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا گیا۔ راقم اس وقت لاہور ڈویژن کا جنرل سیکرٹری تھا اور انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم تھا۔ ھو کے عالم میں تو ’’آہ‘‘ بھی چیخ لگتی ہے، مارشل لاء کی چنگھاڑ کے خوف سے سب پرندے سہم کر اپنے اپنے گھونسلوں میں دبے بیٹھے تھے، ایسے میں آئی ایس او کو قائم رکھنا اور مختلف انداز سے اس کی سرگرمیوں کو جاری رکھنا جتنا مشکل ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ کرنا اہل نظر پر چھوڑتا ہوں، لیکن ایسے مشکل دور کے لئے اللہ تعالٰی نے ڈاکٹر محمد علی نقوی کا انتخاب کر رکھا تھا۔
بیس برس کے دوران ہم طرح طرح کی اونچ نیچ سے گزرتے رہے۔ 1978ء میں جب مرکزی صدارت کی ذمہ داری میرے کندھے پر آئی تو یہی وہ سال تھا، جب آئی ایس او ملک گیر ہوگئی۔ کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، سکھر، حیدرآباد اور کراچی جیسے ڈویژنز میں آئی ایس او کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یہی وہ سال ہے جب حضرت امام خمینی کی تحریک رفتہ رفتہ بام عروج کی طرف بڑھنے لگی۔ ادھر شاہی استبداد بھی پورے کروفر سے معرکہ آزما تھا۔ شاہ ایران کے پاکستان آنے کا اعلان ہوا تو ہم نے ایک اشتہار شائع کیا، جس کا عنوان تھا ’’ہم قاتل شاہ کا استقبال نہیں کرتے۔‘‘ یہی سال امام خمینی کے بڑے فرزند آیت اللہ سید مصطفٰی خمینی کی شہادت کا سال ہے۔ اس کے بعد امام خمینی نجف اشرف میں نہ رہ سکے اور وہاں سے ہجرت کرکے فرانس کے نواح میں ایک گاؤں میں جا پہنچے۔ ہم نے پاکستان میں شاہ کے مظالم کے خلاف اور امام خمینی کی تحریک کے حق میں مظاہرے کئے۔ ایک جلوس کربلا گامے شاہ سے نکالا گیا۔ اس خیال سے کہ پولیس اور انتظامیہ ہمیں یہاں سے آگے نہیں جانے دے گی اور ہمیں اسمبلی ہال کے سامنے تک پہنچنا ہے، ڈاکٹر محمد علی کی تجویز پر جلوس کو مختلف مرحلوں میں تقسیم کیا گیا۔ بظاہر یہ جلوس کربلا گامے شاہ میں موجود تھا لیکن کچھ افراد کو گول باغ جسے ناصر باغ بھی کہتے ہیں، پہنچنے کی ہدایت کی گئی تھی اور کچھ سے کہا گیا تھا کہ وہ پہلے ہی سے اسمبلی ہال کے سامنے موجود ہوں۔
راقم چونکہ آئی ایس او کا صدر تھا تو یہ فیصلہ ہوا کہ میں جلوس میں کربلا گامے شاہ میں موجود رہوں گا۔ یہ وہ دن تھے کہ جب عام شیعہ بھی امام خمینی کی تحریک کی حقیقت کو نہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا ہمیں خود کربلا گامے شاہ کے اندر سے مخالفت بلکہ معرکہ آرائی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف ڈاکٹر صاحب آہستہ آہستہ ساتھیوں کو اس جلوس سے نکل کر اسمبلی ہال پہنچنے کی ہدایت کر رہے تھے۔ پھر وہ خود بھی یہاں سے روانہ ہوگئے، ناصر باغ میں موجود ساتھیوں کو بھی اسمبلی ہال پہنچنے کی ہدایت کی گئی اور پولیس کربلا گامے شاہ میں جلوس کو روک کر کھڑی تھی اور لوئر مال پر نکلنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی، جبکہ ایک جلوس ڈاکٹر محمد علی کی قیادت میں اسمبلی ہال کے سامنے پہنچ چکا تھا اور وہ امام خمینی کی حمایت میں اور شاہ ایران کے خلاف نعرے بلند کر رہا تھا۔ ایک پولیس آفیسر نے ڈاکٹر محمد علی سے پوچھا: آپ نے یہ جلوس کہاں سے نکالا، تو انھوں نے بتایا کہ کربلا گامے شاہ سے، پولیس افسر نے پوچھا کہ آپ کو راستے میں کسی نے نہیں روکا؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا: روکا ہوتا تو ہم یہاں کیسے پہنچ جاتے۔
بیس برس کی رفاقت اور وہ بھی جو شب و روز ’’ادھر ڈوبے اُدھر نکلے‘‘ کی شکل میں رہی ہو، اسے بیان کرنے کے لئے اور اس کی ترجیحات کو طے کرنے کے لئے بہت فرصت درکار ہے، لیکن شاید ڈاکٹر صاحب اپنے قریبی رفیق سے فرصت کی نہیں فعالیت کی توقع رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یادوں اور تاریخ کا ایک خزانہ سینے میں رکھنے والے ڈاکٹر صاحب کے اس رفیق نے اس موضوع پر بہت کم لکھا جب کہ زندگی کا بڑا حصہ لکھنے پڑھنے میں ہی صرف ہوا ہے۔ البتہ اس بات کا مجھے کھلے دل سے اعتراف ہے کہ اس بیس سالہ رفاقت میں جتنے بڑے معرکے سر ہوئے، وہ ڈاکٹر صاحب کی مخلصانہ اور شجاعانہ ہمراہی کے بغیر ممکن نہ تھے۔ ایک مرحلہ آیا جب مجھے یوں لگا کہ جن حدود کے اندر ہم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مل کر جدوجہد کر رہے ہیں، ان میں اب شاید زیادہ پھیلاؤ کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں لیڈر شپ کے تصور نے جو نئی شکلیں اختیار کرلی ہیں، ان میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں کے لئے نئی محدودیتیں بھی ایجاد ہوگئی ہیں۔ صفحۂ ذہن پر یہ خیال بھی ابھرا کہ اگر میدان وسیع ہوتا اور بعض محدودیتیں نہ ہوتیں تو ہم اس ملک میں کہیں بہتر اور نتیجہ خیز جدوجہد کرسکتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ڈاکٹر صاحب کو جس درجے کی صلاحیتوں سے نوازا تھا، ان کے لئے میدان کہیں فراخ درکار تھا۔ کبھی اپنے ہی بنائے ہوئے رولز آف بزنس پر نظرثانی کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ہم اس مرحلے سے بہت حد تک گزر چکے تھے۔
جو میدان ڈاکٹر صاحب شہید نے اپنی نوجوانی سے چن لیا تھا اور جسے ان کے ساتھیوں نے ذوق و شوق سے انتخاب کر لیا تھا، اس کی حدود کو سامنے رکھ کر ابھی کامیابیوں کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکا۔ طلبہ کی ملک گیر تنظیم یونیورسٹیوں اور کالجوں سے گزرتی ہوئی علاقوں اور محلوں تک جا پہنچی۔ علامہ سید عارف حسین حسینی کی قیادت میں ابھرنے والی نئی تحریک اپنی عوامی مقبولیت میں اہل تشیع کی برصغیر کی ماضی کی تمام تحریکوں سے بازی لے جا چکی تھی۔ اساتذہ، وکلا، مزدوروں اور سرکاری ملازمین، ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبوں کی کئی ایک تنظیمیں فعال ہوچکی تھیں۔ بہت سے سکول اور تعلیمی ادارے ملک کے مختلف حصوں میں نظریاتی اور عصری تعلیم و تربیت کے مراکز کی حیثیت سے معرض وجود میں آچکے تھے۔ علماء کی ایک بڑی تعداد ایک قیادت اور ایک تنظیم کے ساتھ کھڑی ہوچکی تھی۔ عالمی مسائل میں شیعہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے فعالیت کر رہے تھے۔ پاکستان کی سیاست کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کی جا چکی تھی۔ اس جدوجہد کے اور بھی کئی کہے ان کہے شعبے اور پہلو ہیں، بہت کم وسائل اور امکانات کے ساتھ یہ جو کچھ ہوچکا تھا، کام نہ تھے بلکہ کرامات تھیں جو ظہور میں آچکی تھیں اور کرامات ایمان، للہیت اور ریاضت کے بغیر ظہور میں نہیں آتیں۔ جتنے خوبصورت پھول اس چمنستان میں کھلے تھے، اس کے گل سرسبد کا نام یقینی طور پر ڈاکٹر محمد علی نقوی تھا، لیکن ابھی حیات کا ماحول سازگار نہیں کہ ساری سچائیاں حرفوں اور لفظوں میں پرو کر مالا کی شکل میں عروس وقت کے زیب گلو کر دی جائیں۔
7مارچ 1995ء کی لہو رنگ صبح ڈاکٹر محمد علی سرخرو ہو کر جب عالم بالا کو سدھارے تو اس سے دو روز پہلے 5 مارچ کو انہوں نے اسلام آباد میں اخوت اکادمی کی بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھی اور اپنی جیب سے پیسے نکال کر ایک دوست کو دیئے کہ وہ مٹھائی لے کر آئے، تاکہ مل کر کام و دھن شیریں کرتے ہوئے اخوت اکادمی کا افتتاح کرسکیں۔ یہ اخوت اکادمی دراصل نئی حکمت عملی کی بنیاد کا نام تھا۔ ابھی تو اس کی کونپلیں نکلنا تھیں، ابھی تو نئی دنیا آباد کرنے کے منصوبے ڈاکٹر صاحب اور ان کے قریبی رفقاء کے دل و دماغ میں تھے کہ اچانک سانحہ ہجر رونما ہوگیا۔ پھر جب 2015ء آیا اور میں نے پلٹ کر دیکھا تو ڈاکٹر صاحب کی جدائی کو بیس برس گزر چکے تھے۔ میں نے زیر لب ڈاکٹر صاحب کو پکارا اور کہا: ڈاکٹر صاحب! آپ سچ کہتے تھے پورے بیس برس لگ گئے، اپنوں اور پرایوں کو نئی حکمت عملی کی اصابت اور ضرورت کے لئے قائل کرتے کرتے۔ ہر قدم پر آپ کی ضرورت کا احساس رہا اور ہر قدم پر آپ کی یاد حوصلہ بڑھاتی رہی اور ہر وقت زباں پر اس طرح کے زمزمے ابھرتے رہے کہ ڈاکٹر محمد علی ایک ایسا رفیق راہ تھا کہ جو آنکھوں سے دُور جا کے بھی دل سے نہ جا سکا۔/۹۸۸/ ن۹۴۰