رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کے ایک سو چونتیس عہدیداروں اور ماہرین پر مشتمل ایک گروپ نے جن میں بعض وزرا بھی شامل ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام خط میں، چھے مسلمان ملکوں کے شہریوں سے متعلق نئے سفری احکامات کی مذمت کی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے پیر کے روز نئے سفری احکامات جاری کیے تھے جن میں ایران ، شام، یمن، لیبیا، صومالیہ اور سوڈان کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر نوے روز کی پابندی عائد کر دی ہے۔
خارجہ پالیسی کے ایک سو تیس سے زائد ماہرین نے صدر ٹرمپ کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس سفری حکم نامے کی وجہ سے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات خطرے میں پڑ جائیں گے جن کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور انٹیلی جینس کے تبادلے پر امریکہ پورا بھروسہ کیے ہوئے ہے۔
اٹارنی جنرل جیف سیشن ، وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن، وزیر دفاع جیمز میٹس، ہوم لینڈ سیکورٹی کے وزیر جان کلے اور نیشنل انٹیلی جینس کے عبوری ڈائریکٹر مائیکل ڈیمپسی بھی اس خط پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔
دوسری جانب امریکی شہریوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے سفری احکامات کے خلاف وائٹ ہاوس کے سامنے مظاہرہ کیا۔ سیکڑوں کی تعداد میں امریکی شہری وائٹ ہاؤس کی سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے سفری احکامات کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی اجتماع کیا۔
مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر تارکین وطن کی حمایت میں نعرے درج تھے۔صدر ٹرمپ کے نئے احکامات کے خلاف یہ مظاہرے ایسے وقت میں کئے جا رہے ہیں جب مختلف ریاستوں کے اعلی عدالتی عہدیداروں نے بھی مذکورہ سفری احکامات کی مخالفت کا اعلان کیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ پچھلے احکامات کی مانند نئے سفری احکامات کو بھی معطل کر دیا جائے گا۔
ادھر اطلاعات ہیں کہ جنوبی نیویارک کے اٹارنی جنرل پریٹ برارا نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے انہیں ان کے عہدیدے سے برطرف کر دیا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے عدالتی عہدیداروں کی جانب سے سخت مخالفت کی جا رہی ہے حتی صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی بھی ان پالیسیوں کی مخالفت کرنے لگے ہیں۔
اسی دوران امریکی ایوان نمائندگان کی انٹیلی جینس کمیٹی نے حکومت امریکہ سے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ ٹاور کے مکالمات سنے جانے سے متعلق صدر ٹرمپ کے الزامات کے حوالے سے لازمی شواہد، پیر تک متعلقہ کمیٹی کے سامنے پیش کرے۔ صدر ٹرمپ نے سابق صدر بارک اوباما پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے انتخابات کے دوران ٹرمپ ٹاور کے ٹیلی فون مکالمات سنے جانے کا حکم دیا تھا۔/۹۸۸/ ن۹۴۰