رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاسوں کے ایجنڈے میں، ملت فلسطین کے حقوق کے جائزے کے تحت ایک شق کے شامل کئے جانے کی مخالفت کی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے دھمکی دی ہے کہ انسانی حقوق کی کونسل کے ایجنڈے میں فلسطینیوں کے حقوق کے مسئلے کو شامل کئے جانے کی صورت میں ان کا ملک اس کونسل کا بائیکاٹ کرے گا۔
امریکہ کا یہ موقف مظلوم فلسطینی قوم کی سرکوبی جاری رکھنے کے لئے صہیونی حکومت کو ہری جھنڈی دکھانے اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے وسیع تشدد پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
امریکی حکومت مدتوں قبل سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر، مقبوضہ فلسطین اور غرب اردن میں انسانی حقوق کی صورتحال کے خلاف قراردادیں منظور کرنے کے سبب دباؤ ڈال رہی ہے۔
گذشتہ ھفتے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے انسانی حقوق کی متعدد غیرسرکاری تنظیموں کے نام خط میں کہا تھا کہ اگر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نمایاں اصلاحات انجام نہیں دیتی اور اسرائیل کے سلسلے میں اس کے رویئے میں تبدیلی نہیں آتی تو ممکن ہے کہ واشنگٹن اس کونسل سے نکل جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے سلسلے میں امریکی رویوں سے، کہ جو صیہونی حکومت کی حمایت میں انجام پاتے ہیں، غاصب صیہونی حکومت کے لئے امریکی حکام کی اعلی سطح پر حمایت اور واشنگٹن کے سیاسی فیصلوں میں صیہونی لابی کے گہرے اثر و رسوخ کی نشاندہی ہوتی ہے۔
البتہ یہ حمایتیں ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اس طرح سے کہ امریکہ نے اسرائیل کے نسل پرستانہ، جارحانہ اور سفاکانہ اقدامات کے سلسلے میں ہونے والے احتجاجات پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور دھمکی دیتے ہوئے اسرائیل کی جارحیتوں کے خلاف مہر بلب رہنے اور اسرائیلی بربریت پر پردہ ڈالنے نیز فلسطینیوں کے حقوق پامال کئے جانے پر تاکید کی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں صیہونی حکومت کے جرائم کا جائزہ لئے جانے، اورفلسطینیوں کے پامال شدہ حقوق کی تحقیقات کی ممانعت کے سلسلے میں امریکی پروپگنڈہ ایسی حالت میں انجام پارہا ہے کہ کچھ دنوں قبل ایک بین الاقوامی ادارے کے خلاف امریکہ کی تشہیراتی یلغار پر، رائےعامہ نے وسیع پیمانے پر احتجاج کیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ ہفتے مغربی ایشیا کے لئے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل نے ایک نسل پرستانہ نظام قائم کرکے فلسطینیوں پر مکمل طور پر تسلط قائم کرلیا ہے۔ مذکورہ کمیشن نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی اداروں کی تحقیقات اور ٹھوس ثبوت و شواہد کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اپرتھائیڈ اور نسل پرستانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
مغربی ایشیا کے لئے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نیکی ہیلی نے کہا کہ امریکا اس رپورٹ سے ناراض ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنتونیو گوٹرش کو چاہئے کہ وہ اس رپورٹ کو واپس لیں۔
امریکی مندوب نے کہا ہے کہ ایک ایسے ادارے کی طرف سے جس کے ارکان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے اس طرح کا پروپیگنڈہ غیر متوقع نہیں ہے۔
امریکہ کے اس دباؤ کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس رپورٹ کو حذف کئے جانے کا مطالبہ کیا جس کے بعد اس رپورٹ کو تیار کرنے والی ریما خلف نے بھی اپنے عہدے سے استعفے دے دیا ۔
مغربی ایشیا کے لئے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن کی ایگزیکٹو سیکریٹری ریما خلف نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ رپورٹ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے جسے ایک بین الاقوامی ادارے نے جاری کیا ہے اور اس میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے حقوق کو پامال اور ان پر اپرتھائیڈ نظام مسلط کیا ہے۔
انہوں نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ فلسطینیوں کی دربدری اور الگ الگ جگہوں میں ان کی تقسیم ایک اہم معاملہ ہے کہ جس کے ذریعے اسرائیل فلسطینیوں پر اپرتھائیڈ نظام مسلط کررہاہے کہا کہ اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے فلسطینی باشندے چار الگ الگ علاقوں مقبوضہ فلسطین، مشرقی بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ پٹی اور یا پھر دیگر ملکوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
مغربی ایشیا کے لئے اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن میں مغربی ایشیا کے اٹھارہ رکن ممالک ممبر ہیں اور اس کمیشن کے قیام کا مقصد مغربی ایشیا کے ملکوں کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی حمایت کرناہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے صیہونی حکومت کے خلاف وسیع احتجاج سے متاثر ہوکر 1975 میں قرارداد نمبر 3379 جاری کی تھی جس میں صیہونزم کو نسل پرستی کے مترادف قرار دیا تھا۔
اگر چہ یہ قرارداد مغربی حکومتوں اور صیہونی حکومت کے امن پسندی سے متعلق کھوکھلے دعووں کے سبب منسوخ کردی گئی ، لیکن اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں اور امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی بے دریغ حمایت اس بات کا باعث بنی ہے کہ عالمی ادارے بھی اپنی ساکھ کھوتے جارہے ہیں اور امریکہ اور صیہونی حکومت کے آلہ کار میں تبدیل ہو رہے ہیں۔/۹۸۹/ف۹۴۰/