‫‫کیٹیگری‬ :
15 April 2017 - 12:27
News ID: 427520
فونت
تحریکیں جب شروع ہوتی ہیں تو ایک آدھ فرد سے ہی شروع ہوتی ہیں اور جب آگے بڑھتی ہیں تو ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ پاکستان میں جب فرقہ واریت کی تحریک شروع ہوئی تھی تو ایک مخصوص فرقے کے دینی مدارس کے طالب علموں نے شروع کی تھی، ان دنوں میں صرف ایک ہی فرقے کیخلاف تقریریں کی جاتی تھیں اور اسی فرقے کے افراد کو چن چن کر مارا جاتا تھا۔
نذر حافی


تحریر: نذر حافی

اس دور میں دین اسلام تو بے چارہ ہوگیا ہے، بعض لوگ تو دین کو ایک پرمٹ کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں، اب آپ دینی لبادے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں، آپ اللہ اکبر کے نعرے لگا کر مسلمانوں کے گلے کاٹیں تو یہ بھی جہاد ہے، آپ اسلام کا نام لے کر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کریں تو یہ بھی نیکی ہے، آپ کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں اور آپ مبلغ اسلام کہلوائیں تو یہ بھی روا ہے، آپ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمانوں پر خودکش حملے کریں تو یہ بھی جہاد ہے۔۔۔۔ گذشتہ دنوں  صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال یا مشعل نامی طالب علم کو جس بے دردری اور لاقانونیت کے ساتھ قتل کیا گیا، اس لاقانونیت کے لئے بھی دین کا سہارا ڈھونڈا جا رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس اور پولیس حکام کے مطابق مقامی پولیس جب یونیورسٹی پہنچی تو مشتعل مظاہرین مقتول کی لاش جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔[1] یعنی اگر مقامی پولیس لاش کو اپنی تحویل میں نہ لیتی تو اس لاش کو جلا کر مزید ثواب حاصل کرنے کا پروگرام بھی تھا۔

اس کے ساتھ ہی اگر مقتول پر حملے کی ویڈیو دیکھی جائے تو اللہ اکبر کے نعرے بھی صاف سنائی دیتے ہیں۔ یعنی جو طریقہ داعش اور طالبان کا تھا، وہی یہاں پر بھی نظر آرہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ داعش اور طالبان کے تانے بانے مدرسوں سے ملائے جاتے تھے اور یہ سب کچھ ایک یونیورسٹی میں ہوا ہے۔ بس اب آپ یوں سمجھ لیجئے کہ وہی دماغ جو طالبان اور داعش کے پیچھے فعالیت کر رہا تھا اب یونیورسٹیوں میں بھی فعال ہوگیا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مقتول توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے تو پھر بھی اسے سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یا عام لوگوں کی!؟ ایک عرصے سے ہم سنتے چلے آ رہے تھے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بھی قبضہ گروپس ہیں، ہاسٹلز میں کمروں پر قبضے کئے جاتے ہیں، خوف و ہراس پھیلایا جاتا ہے، ہاسٹلوں میں دہشت گرد پناہ لیتے ہیں اور بڑی بڑی نامی گرامی دہشت گرد تنظیمیں یونیورسٹیوں میں طلباء کی برین واشنگ کر رہی ہیں۔ وہ دعوے کتنے سچے تھے، اس کا تو ہمیں کچھ علم نہیں، لیکن اس حادثے کی ویڈیوز دیکھنے کے بعد یہ حقیقت بالکل سمجھ میں آ رہی ہے کہ عدم برداشت اور خون خرابے کا جو طوفان ہمارے بعض مخصوص مدارس سے اٹھا تھا، اب اس نے ہماری یونیورسٹیوں کے اندر بھی اپنے وجود کا برملا اظہار کر دیا ہے۔

ہمارا قومی تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ عدم برداشت اور دینی لیبل کو استعمال کرنے کا یہ سلسلہ کبھی بھی دلیلوں اور مناظروں سے نہیں رک سکتا۔ ہمیں قومی و اجتماعی طور پر اس واقعے کو ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل کے طور پر دیکھنے کے بجائے، اپنی ملکی تاریخ میں متشدد تحریکوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ایسی تحریکیں جب شروع ہوتی ہیں تو ایک آدھ فرد سے ہی شروع ہوتی ہیں اور جب آگے بڑھتی ہیں تو ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ پاکستان میں جب فرقہ واریت کی تحریک شروع ہوئی تھی تو ایک مخصوص فرقے کے دینی مدارس کے طالب علموں نے شروع کی تھی، ان دنوں میں صرف ایک ہی فرقے کے خلاف تقریریں کی جاتی تھیں اور اسی فرقے کے افراد کو چن چن کر مارا جاتا تھا۔ دیگر فرقوں کے لوگ اس مسئلے سے لاتعلق اور خاموش رہتے تھے، پھر یہ مسئلہ اتنا آگے بڑھا کہ پاک فوج کے جوانوں سے لے کر مارکیٹوں اور بازاروں سمیت سب کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور اب دہشت گردی کسی ایک فرقے کے بجائے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔

یہ واقع بھی بظاہر ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل سے شروع ہوا ہے، اس پر یونیورسٹیز اور کالجز کے سنجیدہ حلقوں کو بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ اس کی جڑیں کہاں ملتی ہیں!؟ کوئی چاہے یونیورسٹی سے تعلق رکھتا ہو یا دینی مدرسے سے، ہم سب کے سامنے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی بطور نمونہ عمل موجود ہے۔ آپ زندگی کے تمام پہلووں میں ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور خداوند عالم نے بھی آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ختمِ نبوت ﷺ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان آپ ؐ کی سیرت طیبہ کو نمونہ عمل سمجھ کر اس پر عمل کریں۔ حضورﷺ نے اپنی حیات طیّبہ میں حسنِ اخلاق، عفو و درگزر، حلم اور معافی کی لافانی مثالیں قائم کی ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ کے سامنے ان گستاخوں کو بھی لایا گیا کہ جن میں سے کسی نے آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کے سینے میں نیزہ مارا تھا اور کسی نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا اور کسی نے ان کا جگر چبایا تھا۔ سرور دوعالم ﷺ نے ان سارے گستاخوں کو معاف کر کے پورے عالم بشریت میں احسان و نیکی کی ایک لازوال مثال قائم کی۔ حضورﷺ نے میدان جنگ میں لڑنے والوں اور جنگی قیدیوں کے لئے بھی آداب و اخلاق مقرر کئے اور آپ نے جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی شرائط مقرر کیں۔

لیکن آج لوگوں کے سامنے عفو و درگزر اور بخشش و احسان کو فلٹر کر ایک مخصوص اسلام کو پیش کیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں مذہبی قتل و غارت یقیناً ایک افسوسناک المیہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں بھی ختم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیّبہ کو بطور نمونہ عمل پیش کیا جائے۔ تمام سیاسی، رفاہی اور دینی جماعتوں و شخصیات کو لاتعلق رہنے کے بجائے اس مسئلے پر اپنا موقف پیش کرنا چاہیے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے یونیورسٹیز کے طالب علموں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر یونیورسٹیوں سے قبضہ گروپس اور متشدد سوچ کا خاتمہ کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو انصاف فراہم کیا جائے، چونکہ یہ ایک منطقی بات ہے کہ کسی بھی ملک میں اس وقت لاقانونیت کو فروغ ملتا ہے، جب لوگوں کا اعتماد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اٹھ جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ لاقانونیت کو جڑوں سے اکھاڑیں، اسی میں پاکستان اور اسلام کی بھلائی ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬