رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام علیہ السلام نے سترہویں رمضان کی دعا میں فرمایا: اَللَّهُمَّ اهْدِنى فيهِ لِصالِحِ الاَعْمالِ وَ اقْضِ لى فيهِ الْحَوآئِجَ وَ الامالَ يا مَنْ لايَحْتاجُ اِلَى التَّفْسيرِ وَ السُّؤالِ يا عالِماً بِما فى صُدُورِالْعالَمينَ صَلِّ عَلى مُحَمَدٍ وَ الِهِ الطَّاهِرينَ.[۱] ترجمہ : خدایا اس میں میری ہدایت فرما نیک اعمال کے لۓ اور اس میں میری حاجتوں اور امیدوں کو برلا، اے وہ ذات جو تفسیر اور سوال کی محتاج نہیں ہے، اے وہ خدا جو مخلوق کے دلوں میں پوشیدہ رازوں کا جاننے والا ہے، درود نازل فرما محمد اور ان کی پاکیزہ آل پر۔
ایمان کا پہلا تقاضا عمل صالح ہے، قرآن مجید نے عمل صالح کو ایمان کے لازمی تقاضے کے طور پر بیان کیا ہے، ارشاد باری ہے: « فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ أَحَدًا[سورہ کہف، آیت: ۱۱۰] جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اورکسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نہ بنائے».
جب بندہ نیک اعمال کو بجالانا چاہتا ہے تو شیطان اپنی پوری کوشش کرتا ہے کہ اسے اس راستہ سے منحرف کرے اور اسے کوئی نیک عمل کرنے نہ دے اور گمراہی و ضلالت کے طرف لیکر جائے، لیکن بندہ جب ’’اعوذ بالله من الشیطان الرجیم‘‘ کہکر شیطان سے پناہ مانگتا ہے تو اس وقت شیطان میں اتنی طاقت باقی نہیں رہ جاتی کہ وہ اسے گمراہ کرسکے، کیونکہ اگر کسی نے اپنے آپ کو خدا کی بارگاہ میں محفوظ کر لیا ہو اور اس سے مددمانگ رہا ہو تو وہ تمام کائنات کے شر سے محفوظ ہوجاتا ہے اور جب بندہ اپنے خدا سے اسطرح مدد مانگتا ہے تو خداوند عالم سیدھے راستہ کی جانب اسکی ہدایت کرتا ہے: « قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ یَهْدی مَنْ یَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقیمٍ[سورہ بقرہ، آیت:۱۴۲] مشرق و مغرب سب خدا کے ہیں وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے»، اس طرح نہیں ہے کہ کوئی بھی بغیر کسی عمل کے ہدایت یافتہ یا گمراہ ہوجاتا ہے، یعنی اگر کوئی خداوند عالم کے بتائے ہوے راستہ کو اپنائے گا تو یقینا خداوند عالم اسے سیدھے راستہ کی ہدایت کریگا تا کہ وہ بندہ انسانیت کے بلند درجوں کو حاصل کرسکے اور انسان ان درجوں کو نیک اور اچھے کاموں کے ذریعہ ہی حاصل کرسکتا ہے۔
اسی لئے ہم آج کے دن خداوند عالم سے دعا مانگ رہے ہیں: « اَللَّهُمَّ اهْدِنى فيهِ لِصالِحِ الاَعْمالِ؛ خدایا اس میں میری ہدایت فرما نیک اعمال کے لۓ»
خداوند عالم ہماری حاجتوں کا جاننے والا ہے، کیونکہ کوئی بھی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے، جس کے بارے میں حضرت علی(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « قَدْ عَلِمَ اَلسَّرَائِرَ وَ خَبَرَ اَلضَّمَائِرَ لَهُ اَلْإِحَاطَهُ بِکُلِّ شَیْءٍ وَ اَلْغَلَبَهُ لِکُلِّ شَیْءٍ وَ اَلْقُوَّهُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ[۲] خداوند عالم تمام پوشیدہ اور آشکار چیزوں کو جانتا ہے، اور تمام چیزوں پر اسکا احاطہ ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے»۔
کیونکہ خدا ہماری حاجتوں کو جانتا ہے لہذا بغیر مانگے ہمیں عطا کردیتا ہے لیکن بندہ کا اپنی حاجت کو طلب کرنا اسے پسند ہے کیونکہ بندہ جب کوئی چیزخدا سے طلب کرتا ہے تو یہ جانتا ہے کہ عطاء کرنے والا صرف اور صرف خداوند متعال ہے اور جب صرف خداوند متعال کی ذات سے متمسک ہوتا ہے تو خدا اسے ضرور عطا کرتا ہے، اسی لئے آج کے دن ہم خدا سے مانگ رہے ہیں: « وَ اقْضِ لى فيهِ الْحَوآئِجَ وَ الامالَ يا مَنْ لايَحْتاجُ اِلَى التَّفْسيرِ وَ السُّؤالِ يا عالِماً بِما فى صُدُورِالْعالَمينَ؛ اور اس میں میری حاجتوں اور امیدوں کو برلا، اے وہ ذات جو تفسیر اور سوال کی محتاج نہیں ہے، اے وہ خدا جو مخلوق کے دلوں میں پوشیدہ رازوں کا جاننے والا ہے»۔
پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اور آپ کے اہل بیت( علیہم السلام) پرصلوات بھیجنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر صلوات بھیجنے کا معنی یہ ہے کہ خداوندا پیغمبر و آل پیغمبر پر اپنی رحمت نازل فرما، جب آپ پر یہ رحمت نازل ہوگی تو دوسروں کو بھی نصیب ہوگی کیونکہ وہ فیض الہی کا وسیلہ ہیں، امام صادق(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: « مَنْ دَعَا وَ لَمْ يَذْكُرِ النَّبِيَّ (ص) رَفْرَفَ الدُّعَاءُ عَلَى رَأْسِهِ فَإِذَا ذَكَرَ النَّبِيَّ (ص) رُفِعَ الدُّعَاءُ.[۳] جو کوئی دعا کرے اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر صلوات نہ پڑھے تو اسکی دعا اسکے سر پر گھومتی رہتی ہے اور جب رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر صلوات پڑھتا ہے تو اسکی دعا آسمان کی طرف جاتی ہے»۔
اسی لئے ہم آج کے دن خداوند عالم سے دعا کر رہے ہیں: « صَلِّ عَلى مُحَمَدٍ وَ الِهِ الطَّاهِرينَ؛ درود نازل فرما محمد اور ان کی پاکیزہ آل پر»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۵۔
[۲]۔محمد باجقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي،۱۴۰۳ ق، ج۴، ص۳۱۹.
[۳]۔ محمد بن يعقوب كلينى، الكافي (ط - الإسلامية)، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ ق ، ج۲، ص۴۹۱۔
/۹۸۸/ ن۹۴۰