رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی مشھد مقدس سے رپورٹ کے مطابق، مرجع تقلید قم میں سے حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے «محاضرات فی فقہ القرآن الکریم» کے عنوان سے مدرسه علمیہ نواب مشھد مقدس میں اپنی سلسلہ وار تفسیر قران کریم کی نشست میں شرعی احکامات سے متعلق آیات کی تفسیر میں کہا: قران کریم نے سورہ نساء کی ۴۳ ویں آیت میں فرمایا کہ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ترجمہ : اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو یہاں تک کہ تم جان لو کہ تم کیا کہ رہے ہو اور جنابت کی حالت میں بھی، یہاں تک کہ غسل کر لو مگریہ کہ کسی راستے سے گزر رہے ہو اور اگر تم بیمار ہویا سفرمیں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے ہمبستری کی ہو اور تمہیں پانی میسرنہ آئے تو پاک مٹی پر تیمم کرو چنانچہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے » ۔
اس مرجع تقلید نے بیان کیا : قران کریم مومنین کو نشے میں کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک رہا ہے ، یہاں پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ « کیا مومنین بھی شراب پیتے ہیں ؟ اور شراب کی مستی کی حالت میں کیا نماز بھی پڑھتے ہیں ؟ » اس سوال کے جواب کے لئے آیت کے شان نزول پر توجہ ضروری ہے ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے یاد دہانی کی : جب مرسل آعظم حضرت محمد مصطفی (ص) مبعوث بہ رسالت ہوئے تو اس زمانے میں شراب نوشی عرب معاشرے خصوصا مکہ اور مدینہ کے لوگوں کے درمیان میں بہت زیادہ رائج تھی ، قران کریم نے اسی بنیاد پر ابتداء ہی میں شراب نوشی پر پابندی نہیں لگائی اور اسے حرام نہیں کیا ، بلکہ اس نے اس ثقافت کو آہستہ آہستہ ختم کیا ، در حقیقت قران کریم کی یہ نصیحت اس زمانے کے لوگوں کے لئے نازل ہوئی ہے ، مگر ہمارے لئے اس آیت کا پیغام یہ ہے کہ ہم غلط ثقافت اور ماحول کا آہستہ آہستہ مقابلہ کریں اور قدم بہ قدم اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔
انہوں نے اس آیت سے غلط استفادہ اور اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: بعض افراد آیت میں موجود اس جملے «حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ» کو حکم کے قید کے طور پر پیش کرتے ہیں جب کہ خداوند متعال نے اسے مذکورہ حکم کی علت کے طور پیش کیا ہے ، کیوں اس جملے کو قید کے طور پر ماننے کی صورت میں اس کا اثر یہ ہوگا کہ جب تک انسان مست اور نشے میں ہے فقط اس حالت میں نماز کے قریب نہ جائے جبکہ قران کا حکم اس بھی بالاتر ہے اور وہ یہ کہ شراب خور میں ولو مستی کے آثار نہ ہوں پھر بھی وہ نماز نہیں پڑھ سکتا ، نتیجہ میں «حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ» کا جملہ قید نہیں ہے بلکہ مذکورہ حکم کی علت ہے ۔
انہوں نے مزید کہا: فخر رازی کہ جو جبری مذھب ہیں اور انسان کو مختار نہیں مجبور جانتے ہیں ، وہ اس آیت کو « تکلیف ما لا یطاق » کا دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں « خداوند متعال نے نشے میں بھرے اس انسان کو جو اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہے نماز پڑھنے سے منع کیا ہے ۔ » مگر فخر رازی کو ہمارا جواب یہ ہے کہ قران کریم نے شراب کے نشے میں دھت انسان کو مخاطب نہیں قرار دیا ہے بلکہ شراب خوار کو مخاطب قرار دیا ہے ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے اس آیت کے دوسرے حصے « وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا ترجمہ : اور جنابت کی حالت میں بھی یہاں تک کہ غسل کر لو » کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: بعض افراد نے « عَابِرِي سَبِيلٍ» کے معنی مسجد کے پاس سے گذرنے کے کئے ہیں کہ اس صورت میں «صلاۃ» کے معنی مسجد کے ہوں گے کہ جو آیت کے تسلسل اور اتحاد کو توڑ دے گا کیوں کہ مسجد سے گزرنے والا نماز نہیں پڑھتا ، نتیجے میں «صلاۃ» کو نماز کے معنی ہی میں استعمال کیا جانا بہتر ہوگا اور «عابری سبیل» کے معنی «مسافر» کے ہوں گے یعنی اگر کوئی سفر میں مجنب ہوجائے اور غسل کا امکان نہ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھے ۔ /۹۸۸/ ن۹۳۰/ ک۸۳۸