رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے گزشتہ روز نیو یارک میں اقوام متحدہ کی سالانہ اعلی سطحی سیاسی نشست کے موقع پر سی این این ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے مغربی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے نفاذ کے حوالے سے اپنے تمام وعدوں پر دیانتداری کے ساتھ عمل کیا ہے مگر امریکہ نے خود سے مربوط اپنا کردار پوری طرح ادا نہیں کیا۔
انھوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ امریکہ ایٹمی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
محمد جواد ظریف نے اس سلسلے میں ایک نمونے کے طور پر وہائٹ ہاؤس کے چند روز قبل کے ایک بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ہمبرگ اجلاس میں شرکت سے فائڈہ اٹھتے ہوئے گروپ بیس کے ممالک کے سربراہوں کو ایران کے ساتھ تجارت نہ کرنے کی ترغیب دلائی جبکہ امریکہ کا یہ اقدام نہ صرف ایٹمی معاہدے کی ماہیت بلکہ خود معاہدے کے متن کے بھی خلاف ہے۔
ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان طے پانے والے ایٹمی معاہدے کا جائزہ لئے جانے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس معاہدے کے اچھا یا برا ہونے کا دارومدار مقابل فریق کی نیت و عزائم پر ہے۔
ایٹمی معاہدے کی کامیابی اس میں تھی کہ ایران کے خلاف قائم کردہ ناسازگار فضا اور ماحول کو تبدیل کیا جائے اور پابندیوں کو ختم کر دیا جائے مگر امریکہ نے ماحول کو اور زیادہ بگاڑنے کی راہ کا انتخاب کر رکھا ہے اور ایران کے خلاف نئی پابندیوں کا نفاذ ایٹمی معاہدے کے بعد پیدا ہونے والے ماحول میں عدم اعتماد کی صورت حال کو دوبارہ بحال کئے جانے کے مترادف ہے۔
مانیٹر سائٹ کی مبصر اور صحافی باربرا اسلاوین نے ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں امریکی صدر ٹرمپ کے رویے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایٹمی معاہدے کو ہمیشہ ایک برا معاہدہ قرار دیا اور وہ بارک اوباما کے برخلاف اس وقت بھی اس معاہدے کو ختم کئے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ لکھتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اس بات سے نالاں ہیں کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر مکمل طور پر عمل کیا ہے اور اس معاہدے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا ہے اور امریکہ اس بات کا پابند ہے کہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں منسوخ کرے اور اس بات کو ثابت کرے کہ وہ بھی ایران کے ساتھ طے پانے والے ایٹمی معاہدے کا پابند ہے۔
امریکہ کی ٹرمپ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جب تک اس معاہدے کے سلسلے میں نظرثانی کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں وہ اپنے وعدے پر عمل کرتا رہے گا جبکہ عملی طور پر وہ ایٹمی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰