رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی اصفھان سے رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت الله حسین مظاهری نے آج صبح مسجد امیرالمؤمنین(ع) G روڈ پر ہونے والی تفسیر قران کریم کی نشست میں کہا: روح کے دوبارہ زندہ ہونے کا لازمہ عالَم غیب ہر انسان کا ایمان اور خدا کی عبودیت ہے ۔
انہوں نے سوره بقره کی ۱۴۳ ویں آیت «وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَهِیدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِی کُنْتَ عَلَیْهَا إِلا لِنَعْلَمَ مَنْ یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ یَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَیْهِ وَإِنْ کَانَتْ لَکَبِیرَةً إِلا عَلَى الَّذِینَ هَدَى اللَّهُ وَمَا کَانَ اللَّهُ لِیُضِیعَ إِیمَانَکُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِیمٌ ۔ ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنا دیا تاکہ تم لوگوں پرگواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں اور آپ پہلے جس قبلے کی طرف رخ کرتے تھے اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا تاکہ ہم رسول کی اتباع کرنے والوں کو الٹا پھر جانے والوںسے پہچان لیں اور یہ حکم اگرچہ سخت دشوار تھا مگر اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے (اس میں کوئی دشواری نہیں) اور اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا، اللہ تو لوگوں کے حق میں یقینا بڑا مہربان، رحیم ہے » کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: بیت المقدس کی طرف سے مکہ کی سمت قبلہ بدلنے کا مقصد ، خداوند متعال کی جانب سے مسلمانوں کو آزمانا تھا تاکہ سچے اور ظاھری مسلمانوں میں فرق معلوم ہوسکے ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے مزید کہا: قبلہ کی تبدیل کا معاملہ ، اسلام دشمن عناصر خصوصا یہودیوں کی جانب سے کثیر سوالات و شبھات سے روبرو ہوا ، اس مسئلہ نے ان کچے مسلمانوں جن دلوں میں اسلام کی جڑیں مستحکم نہیں ہوئی تھیں شکوک پیدا کردئے ، وہ تغیر قبلہ کے دلائل و وجوہات کی تلاش میں تھے جبکہ اعتقادی معاملات میں دلائل کا مطالبہ قابل تحسین ہے مگر احکام عبادات اور تعبدیات میں دلائل کا مطالبہ قابل مذمت ہے ۔
حوزہ علمیہ اصفھان کے سربراہ نے سوره فصلت کی ۵۳ ویں آیت «سَنُرِیهِمْ آیَاتِنَا فِی الآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِهِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّهُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ ۔ترجمہ: ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے، کیا آپ کے پروردگار کا یہ وصف کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر خوب شاہد ہے؟ » کی تفسیر میں کہا: قران کریم نے احکام عبادات پر مسلمانوں کے بخوبی عمل نہ کرنے کی وجہ تغییر قبلہ کے معاملہ میں شک و شبھہ بتایا ہے ، ہم اسی وقت بے چون و چرا اور آنکھ بند کر کے احکام عبادات پر عمل کرسکتے ہیں جب ہمارا رابطہ خدا سے محکم ہو اور دشمن کے پروپگنڈے کے تحت تاثیر نہ قرار پائیں ۔
حوزه علمیہ میں اخلاقیات کے معلم نے کہا: وہ لوگ جن کے اندر بندگی اور عبودیت کی روح زندہ ہے وہ خدا کے احکامات کی بہ نبست چون و چرا نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو عبودیت کی روح سے خالی ہیں وہ دشمن کے پروپگنڈے سے متاثر ہوجاتے ہیں ، مختلف مسائل کے سلسلے میں نالہ و فریاد کرتے ہیں اور ہمیشہ بندگی کی ذمہ داریوں سے فرار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمیں اپنے اندر موجود بندگی کی روح کو بیدار کرنا چاہئے کہا: وہ پہلا مرحلہ جو انسان کے اندر موجود بندگی کی روح کو بیدار کرتا ہے وہ غیب پر ایمان ہے ، خدا پر ایمان رکھنے والا انسان خود کو گناہوں سے دور رکھتا ہے اور قران کریم کے بیان کے مطابق اس کا وجود خباثتوں سے پاک و صاف رہتا ہے اور ایسے انسان ہی آخرت میں بہشت میں وارد ہوں گے ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے مزید کہا: وہ انسان جس کے اندر خباثت بھری ہو وہ خدا و رسول کے احکام کے سلسلے میں چون و چرا کرتا ہے البتہ ممکن ہے یہ چون و چرا اس کی زبان پر نہ آئے مگر دل میں خدا سے گلہ مند اور الھی تقدیر سے ناراضی ہے ۔
حوزہ علمیہ اصفھان کے سربراہ نے مزید کہا: ناراضیتی اور چون و چرا اس وقت انسان کے دل سے باہر ہوگا جب انسان کو خدا کی ہدایت نصیب ہوگی اور اس انسان کو خدا کی ہدایت نصیب ہوگی جو عالَم غیب پر مکمل ایمان رکھتا ہو، جیسا کہ قران کریم نے ارشاد فرمایا کہ «إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا۔ ترجمہ ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکر» خداوند متعال کی ہدایت سب کے شامل حال ہے مگر یہ انسان ہے جو اپنی سعادت یا شقاوت کے راستے اختیار کرنے میں مختار ہے ۔
حوزه علمیہ میں اخلاقیات کے معلم یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہدایت یافتہ انسان کے دل کو سکون حاصل ہوجاتا ہے کہا: خدا کی خاص عنایت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ انسان کے دل کو سکون ملے اور جب انسان کے دل کو سکون مل جائے گا تو شیطان اس دل پر اپنا قبضہ نہیں جما سکتا اور اس کے اندر نہیں حلول کرسکتا ، شیطان کے لوگوں کے دلوں پر قبضہ ان کے گناہگار ہونے کی وجہ سے ہے اور الھی تقدیر کے سلسلے میں چون و چرا کرنے اور اس پر انگلیاں اٹھانے کی وجہ سے ہے ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ خدا کا حکیم ہونا اس کی بندگی کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہا: خدا جو انسانوں کا خالق ہے وہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ اس پر مہربان ہے ، وہ عالِم مطلق ہے اور اس کے اعمال و افعال حکمت سے بھرے ہیں ، اس نے احکام بندگی میں انسان کی مصلحت کو پیش نظر رکھا ہے ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے مزید کہا: ہمیں وہ کام کرنا چاہئے کہ اسلام کا اعتبار ہمارے دل میں بڑھ جائے ، اسلام پر ایمان و اعتبار کا لازمہ یہ ہے کہ ہم حلال لقمہ کھائیں گے کیوں کہ حرام لقمہ غیب پر ایمان کی دیواریں گرادیتا ہے ، اسلام پر اعتقاد کا لازمہ گناہوں سے دوری ہے ، خدا کی مخلوق کی مدد کبھی اس قدر اثر رکھتی ہے انسان اپنی ترقی کی منزلیں معجزاتی طور پر طے کرلیتا ہے ۔/۹۸۸/ ن۹۳۰/ ک۱۱۲۳