‫‫کیٹیگری‬ :
12 January 2018 - 19:36
News ID: 433610
فونت
قائد ملت جعفریہ پاکستان:
قائد ملت جعفریہ پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی یہ تجویز پیش کر چکے ہیں کہ دینی تعلیم کو سرکاری حیثیت دی جائے اور دینی مدارس کو طب کے مختلف شعبہ جات کی طرز پر تسلیم کیا جائے کیونکہ دینی درسگاہوں نے ملک میں تعلیمی کمی کو پورا کرکے شرح خواندگی میں اضافہ کیا ہے اور آبادی کے ایک بڑے حصے کو تعلیم و شعور کے زیور سے آراستہ کرکے ملک کی خدمت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سید ساجد علی نقوی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام و المسلمین سید ساجد علی نقوی نے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کے نصاب تعلیم کو باقاعدہ نظام تعلیم کا حصہ بناکر مستقل حیثیت دی جائے، دینی درس گاہوں کو خود مختاری کیساتھ ساتھ دیگر تعلیمی مراکز کی طرح مراعات دی جائیں، دینی تعلیم کی ترویج کیلئے الگ یونیورسٹی قائم کی جائے یا پھر موجودہ یونیورسٹیوں میں شامل کرکے الشہادة العالیہ اور العالمیہ کے امتحانات، اسناد اور دیگر امور کو یونیورسٹی سے ملحق کیا جائے۔

حجت الاسلام و المسلمین نقوی نے کہا کہ ہم پہلے ہی یہ تجویز پیش کر چکے ہیں کہ دینی تعلیم کو سرکاری حیثیت دی جائے اور دینی مدارس کو طب کے مختلف شعبہ جات کی طرز پر تسلیم کیا جائے کیونکہ دینی درسگاہوں نے ملک میں تعلیمی کمی کو پورا کرکے شرح خواندگی میں اضافہ کیا ہے اور آبادی کے ایک بڑے حصے کو تعلیم و شعور کے زیور سے آراستہ کرکے ملک کی خدمت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جدید تقاضوں کے پیش نظر مدارس میں نظام تعلیم کو اپ گریڈ کیا جائے، دینی درس گاہوں کو خود مختاری کیساتھ ساتھ دیگر تعلیمی مراکز کی طرح مراعات دی جائیں اور باقاعدہ نظام تعلیم تسلیم کرتے ہوئے الگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے یا پھر موجودہ یونیورسٹیز میں شمولیت کیساتھ الشہادة العالیہ اور العالمیہ کے امتحانات، اسناد اور دیگر امور کو یونیوسٹیز سے ملحق کیا جائے اور اِن کے امتحانات یونیورسٹیز کے زیرانتظام کرائے جائیں نیز ہر وفاق المدارس کا امتحانی بورڈ الگ قائم کیا جائے اور ثانویہ عامہ اور ثانویہ خاصہ کے امتحانات بورڈ لیول پر کرائے جائیں۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬