تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
جب سے ملی یکجہتی کونسل اور پھر متحدہ مجلس عمل کی تشکیل اور فعالیت ہوئی ہے، تب سے ہم اس ضرورت کو محسوس کر رہے تھے کہ علماء اور قائدین کے درمیان اتحاد و یگانگت کے ساتھ ساتھ نچلی شطح تک اس حسین عمل کا مظاہرہ سامنے آئے، بالخصوص تمام دینی و سماجی جماعتوں کے نوجوان باہمی احترام اور اتحاد کے ساتھ بزرگان کا ہراول دستہ بن کر معاشرے میں مثبت اور تعمیری عمل کا آغاز کریں۔ ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے حوالے سے تو ابھی یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا، لیکن گذشتہ پندرہ دنوں میں ایک پرائیویٹ ادارے ’’پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن اسلام آباد ‘‘ نے اسلام آباد میں ہی اوپر تلے مسلسل دو بار تین روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کرکے اسلامی مکاتب فکر کے نوجوانوں کو جمع کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے، جس میں پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور سندھ کے بعض اضلاع سے درجنوں نمائندگان، طلباء اور فضلاء نے شرکت کی۔ ہمیں بھی ان نوجوانوں اور مستقبل کی دینی قیادت سے ملاقات اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ اس دوران ایک خوشگوار حیرت یہ تھی کہ شدت اور غلط فہمی کے موجودہ سنگین دور میں (جہاں فرقہ وارانہ نعروں، اشتعال انگیز سرگرمیوں، جلاؤ گھیراو کی کارروائیوں حتٰی کہ خودکش حملوں کے لئے نوجوان طبقے ہی کو استعمال کیا جاتا ہے) جوانوں بالخصوص دینی مدارس، دینی جماعتوں اور دینی اداروں کے طلباء بہت وسعتِ نظری، وسعت قلبی اور وسعت علمی کے حامل ہیں، خاص طور پر اہل حدیث اور جماعت اسلامی سے وابستہ جوانوں کے اندر باقی لوگوں کی نسبت زیادہ وسعت و برداشت نظر آتی ہے۔ (اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ باقی لوگ متشدد ہیں بلکہ یہ محض مشاہداتی تناسب ہے)۔
تمام مسالک کے طلباء نے اسلام آباد میں شیعہ مکتب فکر کی مرکزی اور عظیم عالمی درسگاہ و علمی مرکز جامعۃ الکوثر کا مطالعاتی دورہ بھی کیا، جہاں انہیں جامع مسجد کا مشاہدہ کرایا گیا، جو اسلامی طرز تعمیر اور قرآنی خطاطی میں اپنی مثال آپ ہے، جبکہ مرکزی لائبریری کے مطالعہ کے دوران معلوم ہوا کہ ہزاروں کتب اپنے سینے میں سموئے ہوئے یہ لائبریری پاکستان میں موجود دینی مراکز میں اگر سب سے پہلے نمبر پر نہیں تو صف اول کی دو تین لائبریریوں میں ضرور شامل ہے، البتہ اپنی تعمیر، ترتیب، نظم اور مواد میں بے نظیر اور بے مثال ہے۔ اس لائبریری کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ دیگر مسلکی اور دینی اداروں سے ہٹ کر یہاں تمام مسالک اور مکاتب فکر کی تمام بڑی کتب موجود ہیں اور طلباء کے لئے کھلا ماحول اور اجازت میسر ہے کہ وہ مکمل ذہنی آزادی کے ساتھ تمام اسلامی مسالک کی کتب کا مطالعہ کریں اور ان سے بلاتفریق علمی استفادہ کریں، جبکہ دیگر دینی و مسلکی اداروں بالخصوص مدارس میں ایسا ماحول اور مواد دستیاب نہیں ہے۔ اگر یہی ماحول اور مواد دیگر دینی اداروں میں بھی رائج ہو جائے تو مسلکی اختلافات اور علمی تنازعات کے حقائق واضح ہو جائیں اور لاکھوں غلط فہمیوں کے ازالے کے بعد ایک پرامن علمی و معاشرتی ماحول میسر ہو جائے۔
اس مطالعاتی دورے کے دوران اہل سنت مکاتب فکر بالخصوص دیوبندی مسلک کے علماء اور طلباء کے اذہان میں قرآن (خصوصاً چالیس پارے اور حفاظ نہ ہونے کے معاملے میں) کے حوالے سے اہل تشیع مسلک کے خلاف موجود منفی پروپیگنڈے کا ازالہ ہوا۔ کیونکہ اہل سنت مہمانوں نے جامعۃ الکوثر کی جامع مسجد اور لائبریری میں موجود قرآن مجید کے سینکڑوں نسخوں کا مشاہدہ کیا، جہاں چالیس پاروں والا قرآن دور دور موجود نہ تھا بلکہ تمام تر بڑی شیعہ تفاسیر میں وہی تیس پاروں والا قرآن ہی شامل تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جب اہل سنت علماء و طلباء کی موجودگی میں شیعہ مدرسۃ الحفاظ کے شیعہ حفاظ بچوں کے ساتھ محفل قرآن منعقد ہوئی تو تمام اہل سنت مہمان ورطہ حیرت میں ڈوب گئے اور حیرانگی سے انگشت بدنداں تھے کہ شیعہ مسلک میں بھی حفاظ ہوتے ہیں؟ اور ایسے ہوتے ہیں جن کی مثال کسی اور مسلک میں ملتی ہی نہیں؟؟ اہل سنت علماء و طلباء نے شیعہ حفاظ بچوں کا جی بھر کر اور دل کھول کر تمام طریقوں سے امتحان لینے کی کوشش کی اور شیعہ حفاظ بچے ہر امتحان میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد اختتامی کلمات کے دوران اہل سنت علماء و طلباء نے بخل کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اعلانیہ طور پر اعتراف کیا کہ فرقہ پرستوں اور تقسیم پسندوں کی طرف سے کئے گئے منفی پروپیگنڈے کا ہم بھی شکار تھے، لیکن آج یہ پروپیگنڈہ الحمدللہ دور ہوگیا ہے۔ اگر اسی طرح قربتوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے تو کروڑوں لوگ راہ ہدایت پر آسکتے ہیں۔
تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کے میدان میں استاد کی اہمیت اور حیثیت پوری دنیا میں مسلمہ ہے۔ چاہے دنیاوی تعلیم ہو یا دینی تعلیم، استاد کے سکھائے اور پڑھائے ہوئے ایک ایک لفظ اور انداز بالخصوص عقائد کے معاملات میں طریقے اور مواد کا اثر شاگرد اور طالب علم پر براہ راست مرتب ہوتا ہے۔ دنیاوی لحاظ سے استاد کی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے طلباء دنیا میں کامیاب ترین انسان بنتے ہیں اور دینی و اسلامی لحاظ سے استاد کی قابلیت و صلاحیت بالخصوص تعلیمات کی منتقلی طلباء کی دنیاوی زندگی کے ساتھ دائمی اور اخروی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، اس لئے دینی اساتذہ کی ذمہ داری دنیاوی اساتذہ کے مقابلے میں چنداں بہت زیادہ ہے۔ دینی اساتذہ چاہیں تو شاگردوں کی دنیا بھی اچھی کریں اور آخرت بھی محفوظ اور اگر چاہیں تو شاگردوں کی دنیا بھی جہنم بنائیں اور آخرت بھی دوزخ کے سپرد کریں۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے مشاہدے کے دوران چند ایسے طلباء بھی سامنے آئے، جنہیں اپنے اساتذہ نے دیگر مسالک بالخصوص شیعہ اور اہل حدیث مکتب فکر کے خلاف اس قدر متنفر اور متشدد کیا ہوا تھا کہ اتحاد و وحدت کے اس حسین اجتماع اور مطالعاتی دورے کے دوران بہترین اور پرامن ماحول کے باوجود وہ منفی ذہانت کے ساتھ ہر چیز کا مطالعہ و مشاہدہ نہیں بلکہ محاسبہ و تنفید کرتے رہے اور مختلف اہداف کے حصول کی خاطر ٹوہ میں لگے رہے، جبکہ اتحاد و اخوت کے مقامات اور مواقع پر گریز پاء اور الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتے رہے۔ مجھے ان نوخیز بچوں اور اسلام سے بے پناہ محبت کا عقیدہ رکھنے والے بچوں سے کوئی گلہ نہیں، میں ان اساتذہ سے گلہ مند ہوں، جنہوں نے اپنی زہر آلود، نفرت انگیز اور تفرقہ بازی پر مبنی سوچ اور فکر کو بچوں اور شاگردوں کے اذہان میں اس قدر انڈیل دیا ہے کہ انہیں اب اپنے علاوہ کوئی جنتی اور بہشتی نظر ہی نہیں آتا۔ خدا جانے آخرت پر ایمان رکھنے والے آخرت میں کس طرح آخرت کے ضامن نبی ؐ کا سامنا کریں گے۔؟؟؟
ہمارے مطالعاتی دورے کا ایک حصہ دیوبند مکتب فکر سے متعلق اسلام آباد کے ایک بڑے دینی مدرسے ’’جامعہ فریدیہ‘‘ کے مشاہدے پر مشتمل تھا، جسے پرویز مشرف کے دور میں کافی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ اس مدرسہ کے میزبانوں نے خوش دلی سے تمام مکاتب فکر کے مہمانوں کا استقبال کیا اور مدرسہ کے دو حصوں ’’دارِ ابی بکر ‘‘ اور "دارِ علی‘‘ کا دورہ کرایا جبکہ دیگر دو حصوں یعنی ’’دارِ عمر‘‘ اور "دارِ عثمان‘‘ کا دورہ وقت کی قلت کے سبب نہ ہوسکا۔ اس مدرسہ میں طلباء کی کل تعداد پندرہ سو سے زائد ہے، جس میں پانچ سال سے لے کر تیس یا پینتیس سال کے طلباء شامل ہیں۔ حفظ قرآن سے لے آخری تدریسی کورس تک تعلیم کا اہتمام ہے۔ اعلٰی تعلیم کے حصول کے لئے یہاں سے طلباء مختلف یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں جبکہ اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل کافی طلباء اس وقت ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجز میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مدارس میں عربی پڑھائی تو جاتی ہے لیکن بولی نہیں جاتی، اس کمی کو پورا کرنے کے لئے جامعہ فریدیہ میں ایسی کلاسز بھی ہیں، جو درس و تدریس کے اوقات کے علاوہ اپنے اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، کھانے پینے اور کھیلنے کے اوقات میں بھی عربی بولتے ہیں، تاکہ ان کے اندر عربی سمجھنے پڑھنے کے علاوہ بولنے کی عادت پیدا ہو۔ مدرسہ میں طلباء کی کثیر تعداد کی وجہ سے ہر کلاس روم طلباء سے بھرا ہوا تھا اور بالکل روایتی طریقے سے فرش پر بیٹھ کر طلباء علم حاصل کر رہے تھے اور استادِ محترم ایک نرم و گداز گدے پر تشریف فرما ہوکر تدریس کا حق ادا کر رہے تھے۔
دینی یا دنیاوی لحاظ سے تعلیمی اداروں کی بنیاد اور جان دراصل کتب اور کتب خانہ ہوتا ہے۔ کسی علمی مرکز کے معیار اور علمی دلچسپی کا اندازہ اس کے علمی ذخیرے یعنی کتب خانے سے لگایا جاتا ہے، اس لحاظ سے جامعہ فریدیہ میں واضح کمزوری نظر آئی کہ ان کے ہاں کتب خانہ بہت محدود اور کمزور نظر آیا، جس کی نشاندہی ہم نے اپنے محترم میزبان سے بھی بالمشافہ کی اور انہوں نے اس کمی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے بہتر بنانے کے ارادے کا اظہار کیا۔ ہمیں لگتا ہے کہ مدرسہ مذکورہ کے طلباء میں محدودیت اور یک طرفہ فکر کی ایک بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ انہیں تمام مکاتب اور مسالک کے علمی ذخائر اور کتب سے کماحقہ آزادانہ استفادے کے مواقع فراہم نہیں کئے گئے، جس کی وجہ سے ماضی میں بھی پریشانیاں لاحق ہوئیں اور اب بھی اجنبی ماحول قائم ہے۔ غیر ملکی طلباء کے داخلے اور قیام کے حوالے سے میزبان محترم نے بتایا کہ ماضی کے حالات کے پیش نظر ہم اس معاملے میں بہت دقت بلکہ سختی سے کام لیتے ہیں اور داخلے کے لئے سخت شرائط رکھی ہوئی ہیں، جس میں والدین کے شناختی کارڈ کے ساتھ بچے کا نادرا کی طرف سے جاری کردہ ب فارم اور علاقے سے کسی عالم یا جاننے والے کا ضمانت نامہ شامل ہے۔ میزبان محترم نے بتایا کہ حالات کافی بدل چکے ہیں، اب تو ہماری شیعہ علماء سے کافی دوستیاں ہوگئی ہیں اور ہم خوشگوار ماحول ایک دوسرے کے ساتھ علمی و دینی معاملات میں تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔
ہمارا یہ ماننا ہے کہ اگر طلباء ہمیشہ اپنے اساتذہ کے مزاج، انداز اور عقائد پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں، بلکہ اکثر طلباء اپنے اساتذہ کا عکس نظر آتے ہیں، جن طلباء میں تعصب نظر آتا ہے وہ انہیں اساتذہ سے منتقل ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل سیاسی اہداف کے حصول اور چند علمی موضوعات پر مخصوص اور محدود محافل کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مسالک اور مکاتب فکر کے جوانوں بالخصوص دینی مدارس کے طلباء کے درمیان مستقل روابط کا مستقل پروگرام وضع کریں اور اس پروگرام کو ایسے ہی جاری کریں، جیسے وہ سیاسی اہداف کے حصول یا مذہبی معاملات میں بعض اوقات ہنگامی طور پر جمع ہوکر سر جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے مستقبل کی دینی قیادت غیر متعصب قیادت کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔ ایک ایسی قیادت جو رواداری کی مثال ہو۔ جو برداشت و تحمل کا نمونہ ہو۔ جو تمام مسالک اور مکاتب کی اکثر یا کم از کم بنیادی تعلیمات کا براہ راست علم رکھتی ہو۔ ایک ایسی قیادت جو جنگ و جدل اور خودکش حملوں کی بجائے علمی و دینی ترقی اور پیش رفت کے بارے میں سوچنے پر اپنے اوقات صرف کرے۔ پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن جیسے ادارے ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے معاون اور دست و بازو بن سکتے ہیں اور بزرگ قائدین و دینی جماعتوں کے لئے زمین ہموار کرسکتے ہیں۔ یقین جانیے جوان علماء اور طلباء کا حالیہ پروگراموں میں کردار اور ولولہ دیکھ کر ہماری مایوسی کم ہوئی ہے اور امیدوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بات وہی ہے کہ اگر سینیئر علماء اور دینی مدارس کے اساتذہ اور محراب و منبر پر موجود حضرات اپنے شاگردوں اور پیروکاروں کو صحیح راستہ یعنی برداشت اور علم کا راستہ دکھائیں تو ہمارے سارے مسائل ہوسکتے ہیں اور ہم اپنی آنکھوں سے پرامن معاشرے کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔/۹۸۹/ف ۹۴۰