تحریر: سید میثم ہمدانی
آج سے آٹھ برس قبل کی بات ہے جب کوئٹہ کے اہل تشیع پوری دنیا میں مسلمانوں کی مانند فلسطینیوں پر ہونے والے صیہونی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کیلئے اپنے شہر کی سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے۔ عالمی استکبار کے گماشتوں نے تکفیری مائنڈ سیٹ کو ان روزہ داروں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے بے گناہ نوجوانوں کو ان کے پاک خون میں نہلا دیا۔ شائد نائجیریا کے علاوہ واحد ملک پاکستان ہے، جہاں مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت میں اس طرح کی قربانی پیش کی گئی ہو۔ ویسے تو کوئٹہ شہداء پرور شہر ہے، لیکن اس شہر کی یہ عظیم قربانی کچھ مختلف تھی۔ اس قربانی میں شہیدوں کا تعلق ہزارہ قبیلہ سے تھا، جبکہ وہ مذہب کے اعتبار سے شیعہ تھے، لیکن جس قوم کی حمایت میں نکلے تھے، وہ نہ تو ہزارہ تھی اور نہ ہی شیعہ، ہاں مظلوم ضرور تھی۔ ان کے امام نے انہیں یہی سکھایا تھا کہ یہ نہ دیکھنا کہ مظلوم کا قوم، قبیلہ اور مذہب کیا ہے بلکہ "کونوا للظام خصما و للمظلوم عونا۔"
تقریباً ستر سے زائد یہ امامیہ نوجوان جو روزہ کی حالت میں مظلومیت کے ساتھ شہید کر دیئے گئے، ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے امام کی پیروی میں روح اللہ خمینی کی ندا پر لبیک کہتے ہوئے عالمی استکبار اور غاصب صیہونیت کی مذمت کرنے نکلے تھے۔ یہ شہداء اپنے امتحان میں کامیاب ہوگئے اور جاودانہ زندگی کی جانب روانہ ہوئے، لیکن پیچھے رہنے والوں کیلئے امتحان مقرر کر گئے۔ شہید کی یاد کو زندہ رکھنا شہادت سے کم نہیں ہے۔ کسی قوم کی زندگی کی علامت اس قوم کا اپنے شجاع سپوتوں کی یاد کو زندہ رکھنا ہے۔ شہید اپنے ہدف و مقصد کو حاصل کرنے میں اپنی جان کا نذرانہ دینے کی حد تک آگے بڑھ جاتا ہے۔ شہداء کے ورثاء کی ذمہ داری شہید کی یاد کو زندہ رکھنا ہے، تاکہ اس کا ہدف و مقصد فراموش نہ ہو جائے۔ ہماری معاشرتی اور فردی زندگیوں پر یہ ایک بڑا سوال ہے کہ آیا ہم اپنی سیاسی چہل پہل کیلئے کروڑوں خرچ سکتے ہیں تو کیا حقیقی اہداف کے حصول کی راہ میں شہید ہونے والوں کی یاد کو زندہ رکھنے کیلئے بھی کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔؟
یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے، جو جس حد تک کرسکتا ہے، فردی سطح پر، اجتماعی سطح پر شہداء کی یاد کو زندہ رکھنے کیلئے کوشش کرے۔ ہماری کوششیں اور فعالیت درحقیقت ہماری ترجیحات کا پتہ دیتی ہیں۔ ہم بہت سے کام کرنے کیلئے محنت کرتے ہیں اور جو کام کرنا چاہتے ہیں، اس کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لیتے ہیں، لیکن جو کام ہماری ترجیح میں شامل نہ ہو، اس کیلئے ہزاروں بہانے بن سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شہداء کو اپنی زندگی میں انجام دینے والے کاموں میں اولین ترجیح کے طور پر شامل کریں۔ شہید کی یاد شہید کے ہدف اور مقصد کی یاد ہے۔ شہید کی یاد شہید کی روح کے ساتھ تجدید عہد ہے۔ شہید یعنی ایسی ذات کہ جس نے اپنی جان کو خدا کے راستے میں قربان کرکے گواہی دی ہے کہ خدا کا راستہ حق کا راستہ ہے اور کامیابی حق کے راستے پر گامزن رہنے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰