رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، سرزمین ایران کے مشھور استاد حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر ناصر رفیعی نے اس سوال کے جواب میں کہ ہمیں "حسد" سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہئے اس بری سے صفت سے نجات اور بچنے کے ۵ راستے بیان کئے ۔
سب سے پہلا راستہ خدا سے پناہ مانگنا اور اعوذ باللہ کہنا ہے جیسا کہ سوره «فلق» اور سوره یوسف کی 64 آیت «فَاللهُ خیر حافظاً وَ هُوَ اَرحَمُ الرّاحمین» میں حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی درخواست ہے ۔
اگر آپ خود کو حسد سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے دل میں حسد نہ آئے تو سوره حشر کی 10 ویں آیت «وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ؛ ترجمہ : اور جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے » کی تلاوت کیا کریں اور اگر اسے نماز کے قنوت میں پڑھا جائے تو بہتر ہے ۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ ایمان و اعتقاد میں استحکام لائیں ، بعض افراد ائمہ طاھرین سے حسد کرتے تھے ، جب رسول اسلام چار سال کے تھے تو حلیمہ سعدیہ نے حضرت کے گلے میں کچھ چیزیں پہنائیں اور کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ آپ حاسدوں کے حسد اور نظر بد سے محفوظ رہیں ، مگر حضرت نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا کہ «ان ربّی یحفظنی؛ میرا خدا میری حفاظت کرے گا » حضرت نے ایک لمحہ کو بھی شرک نہیں کیا اور حضرت کے اباو اجداد بھی مومن تھے ۔
بعض افراد، بعض چیزوں جیسے مرجعیت ، میڈیکل ، خطابت ، نوحہ خوانی وغیرہ میں مشھور ہوجاتے ہیں اور دوسرے اس مقام پر یہ سوال اٹھاکر کہ اتنے لوگوں میں سے اِسے ہی یہ مقام کیوں ملا ، حسد کرتے ہیں ، رهبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی نماز جمعہ میں فرمایا تھا کہ ہم سے کچھ لوگوں کی مخالف کی وجہ حسد ہے ۔
قرآن کریم نے ان افراد کے جواب میں سوره نساء کی 54 ویں آیت میں ارشاد فرمایا کہ ہے کہ « أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلي ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ؛ کیا یہ( دوسرے) لوگوںسے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے؟ (اگر ایسا ہے) تو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انہیں عظیم سلطنت عنایت کی » یا سوره آل عمران 26 ویں آیت میں ارشاد فرمایا کہ « قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ؛ کہدیجیے: اے اللہ! (اے) مملکت (ہستی ) کے مالک تو جسے چاہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہے حکومت چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے» لہذا اگر انسان کا اعتقاد محکم ہو تو وہ ھرگز حسد نہیں کرے گا ۔
مرحوم حضرت آیت الله محمد رضا گلپائگانی فرماتے ہیں کہ ایک صاحب جن سے ہمارا علمی مباحثہ تھا ایک دن وہ مریض ہوگئے اور بستر پر پڑگئے ، جب میں ان کی عیادت کے لئے گیا تو دیکھا کہ وہ کفر آمیز باتیں کر رہے ہیں اور خدا کی بہ نسبت بدبین ہیں ، اور کہ رہے ہیں کہ کیوں تمھاری حیات طولانی ہے اور تم مرجع وقت بن گئے جب کہ ہم موت کے عالم میں ہیں اور میرے بچے یتیم ہوجائیں گے ، میں نے جواب دیا کہ کیا موت و ترقی میرے ہاتھ میں ہے ؟ کوئی ۹۰ سال عمر کرتا ہے تو کوئی ۴۰ سال کی عمر میں ہی موت کی آغوش میں سوجاتا ہے ، ہم خدا کو راستہ نہیں دیکھا سکتے ۔/