رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، 2013ء کے اوائل میں جب کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ قوم کو ٹارگٹ کلنگ اور خودکش دھماکوں کے ذریعے مسلسل دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، تو ان دنوں اس قوم کے ہر فرد کے ذہن میں یہی صورتحال ایک معمہ بنی ہوئی تھی کہ کس طرح اس دہشتگردی کے لعنت پر قابو پاکر اپنے ملت کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔؟ جب علمدار روڈ پر دو خودکش دھماکے ہوئے اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہایا گیا، تو ہر شخص ناامیدی کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جب شیعہ ہزارہ قوم نے اپنے شہداء کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے پرامن احتجاجی دھرنا دینے کی حامی بھری، تو اس وقت اس قوم کا جز ہونے کی حیثیت سے میں یہی سوچ رہا تھا کہ اس احتجاجی دھرنے سے کیا حاصل ہوگا۔؟ اس احتجاجی دھرنے میں اسکاؤٹس سکیورٹی کے خدمات سرانجام دے رہے تھے، بعض مقررین اپنے تقروں سے شرکاء کو بیدار اور پرامید رکھنے کی کوششیں کرتے، بعض افراد دھرنے کے شرکاء کیلئے پانی اور کھانے کے انتظامات کر رہے تھے اور بعض نوجوان سوشل میڈیا پر اپنی تحریک کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر کوریج دینے کی بھرپور کوششیں کر رہے تھے، گویا جس شخص سے جو کچھ بھی ہوسکتا تھا، اس نے اپنی سکت کے مطابق اپنی ذمہ داری نبھانے کی مخلصانہ کوشش کی۔
اس جدوجہد سے چند دنوں میں ہی اس وقت کے وزیراعظم کوئٹہ تشریف لائے اور بلوچستان کی پوری صوبائی حکومت کو برطرف کرکے گورنر راج لگا دیا۔ وہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا، جس میں مجھے ذاتی طور پر یہ یقین ہوا کہ اگر اس ملت کا ہر شخص اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے تو کسی بھی ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ جس طرح ان دنوں پاکستانی قوم نے اپنی ذمہ داریاں نبھائی، اسی طرح انتخابی میدان میں بھی دشمن سے نبرد آزما ہونا، اس ملت کا قومی و دینی فریضہ ہے۔ پاکستان بھر کی طرح کوئٹہ میں بھی انتخابی سرگرمیوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی آرہی ہیں۔ شیعہ ہزارہ قوم کوئٹہ کے دو علاقوں علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن میں آباد ہے۔ ماضی کے انتخابی معرکوں میں علمدار روڈ کا علاقہ انتخابی حلقے کے اعتبار سے حلقہ پی بی 2 کہلاتا تھا اور ہزارہ ٹاؤن کا علاقہ حلقہ پی بی 6 میں شمار ہوتا تھا۔ گذشتہ عام انتخابات میں حلقہ پی بی 2 سے مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار سید محمد رضا صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے، جبکہ حلقہ پی بی 6 سے آج تک شیعہ ہزارہ قوم کا کوئی امیدوار رکن اسمبلی منتخب نہیں ہو پایا، جس کی اہم وجہ اس حلقے میں شیعہ ہزارہ ووٹوں کی کم تعداد تھی۔
لیکن اس مرتبہ 2017ء میں ہونے والی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد صورتحال قدرے مختلف ہوچکی ہے۔ حلقہ پی بی 2 کے نام کو تبدیل کرکے حلقہ پی بی 27 اور حلقہ پی بی 6 کے نام کو تبدیل کرکے حلقہ پی بی 26 رکھ دیا گیا ہے۔ یہ تبدیلی محض نام تک محدود نہیں بلکہ ان میں ووٹروں کی تعداد میں اضافہ اور حلقوں میں شامل اکثر علاقوں کی رد وبدل بھی ہوئی ہے۔ حلقہ پی بی 27 میں کل ووٹرز کی تعداد 117250 ہے، جس میں شیعہ ہزارہ ووٹ کا تناسب 30 فیصد کے لگ بھگ بنتا ہے، جبکہ باقی 70 فیصد ووٹ پشتون، بلوچ، پنجابی اور دیگر اقوام کے ہیں۔ اس علاقے میں پہلے شیعہ ہزارہ ووٹرز کی تعداد اکثریت میں شمار ہوتی تھی، جبکہ اس مرتبہ صورتحال ماضی سے قدرے مختلف ہے۔ دوسری جانب حلقہ پی بی 26 میں شیعہ ہزارہ ووٹرز کی تعداد زیادہ اور حلقہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہزارہ قوم کی اسمبلی میں نمائندگی کی زیادہ امید پیدا ہوچکی ہے۔ حلقہ پی بی 27 علمدار روڈ کے علاقے میں بنیادی طور پر چار مرکزی شیعہ ہزارہ امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں مجلس وحدت مسلمین کے سید محمد رضا کے علاوہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق، ہزارہ سیاسی کارکن کے چیئرمین طاہر خان ہزارہ اور متحدہ مجلس عمل کے امیدوار لیاقت علی ہزارہ شامل ہے۔
اسی طرح حلقہ پی بی 26 ہزارہ ٹاؤن کیلئے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے احمد علی کوہزاد، چیئرمین ہزارہ سیاسی کارکن طاہر خان ہزارہ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدوار و سابق رکن قومی اسمبلی سید ناصر علی شاہ ہزارہ، ایم ڈبلیو ایم کے برکت علی بھیاء اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا ولی محمد شامل ہے۔ گویا ان حلقوں میں اصل معرکہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، جے یو آئی/متحدہ مجلس عمل، ہزارہ سیاسی کارکن، بلوچستان نیشنل پارٹی اور مجلس وحدت مسلمین کے درمیان ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ گذشتہ پندرہ سالوں سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، لیکن آج تک کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ سیاسی جماعت اپنے آپ کو ایک آزاد و لبرل سیاسی جماعت کہتی ہے، البتہ اس جماعت کا موقف یہ ہے کہ ہزارہ قوم اپنی بقاء کی جنگ محض اپنے قومی شناخت کی حیثیت سے جیت سکتی ہے۔ ہزارہ قوم محدود آبادی میں رہتے ہوئے پاکستان کے دیگر شیعہ آبادی سے منقطع ہوکر پاکستان کی ریاست سے اپنے شہری حقوق حاصل کرسکتی ہیں۔ اسی طرح ایچ ڈی پی کے جنرل سیکرٹری احمد علی کوہزاد قومی شناختی کارڈ منسوخ ہونے کی وجہ سے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دیئے جا چکے تھے، لیکن بعدازاں بلوچستان ہائیکورٹ نے انہیں دوبارہ اسی منسوخ شدہ شناختی کارڈ کیساتھ الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔
اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ایچ ڈی پی کے جنرل سیکرٹری احمد علی کوہزاد حلقہ پی بی 26 سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو کسی بھی وقت انہیں قومی شناختی کارڈ کے مشکوک و منسوخ ہونے کی بناء پر دوبارہ نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہزارہ سیاسی کارکن کے چیئرمین طاہر خان ہزارہ نے قومی اسمبلی کے نشست پر بلوچستان نیشنل پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، یعنی دونوں ایک سکے کے دو رخ گردانے جاتے ہیں۔ طاہر خان ہزارہ اور سید ناصر علی شاہ کا موقف ہے کہ ہم ہزارہ قوم کے حقوق بلوچ اور پشتون قوم کیساتھ مل کر احسن طریقے سے حاصل سکتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئٹہ میں آباد ہزارہ قوم کو بلوچ اور پشتون سمیت دیگر اقوام کیساتھ دوستانہ روابط قائم رکھنے چاہیں، لیکن یہ تعلقات برابری کے بنیاد پر ہوں تو بہتر ہے۔ ہزارہ قوم اپنی تقدیر کے فیصلوں کو بلوچ یا پشتون قوم کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتی، کیونکہ بلوچ قوم گذشتہ ستر سالوں سے وفاق کیساتھ نبرد آزما بھی ہیں اور سیاسی و جمہوری سسٹم کا حصہ بھی رہے ہیں، بلوچ قوم آج تک وفاق سے اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے نالاں بھی ہے۔
یعنی بلوچ من حیث القوم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ریاست پاکستان سے اپنے حقوق کو آزاد بلوچستان کے نعرے کیساتھ عسکری جدوجہد کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے یا موجودہ سیاسی نظام میں رہ کر اپنے بقاء کی جنگ جیتی جاسکتی ہے۔؟ اسی طرز پر پشتون قوم بھی گذشتہ ستر سال گزرنے کے باوجود وفاق سے حقوق کی عدم فراہمی پر ناراض ہے اور گریٹر پشتونستان کی تشکیل کا خواب دیکھ رہی ہے، جس میں ہزارہ قوم کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ لہذا جو اقوام ستر سال گزرنے کے باوجود اپنے حقوق وفاق سے حاصل نہیں کر پائیں، تو ہزارہ قوم کو ان کے حقوق کیسے دلوا سکتی ہیں۔؟
اسی طرح متحدہ مجلس عمل نے حلقہ پی بی 27 علمدار روڈ کیلئے لیاقت علی ہزارہ کو اپنا امیدوار منتخب کیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل سے متعلق خود جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی رہنماء مولانا محمد خان شیرانی نے 7 جولائی 2018ء کو مستونگ میں جامعہ مفتاح العلوم میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "متحدہ مجلس عمل کی تشکیل غیر سنجیدہ ہے اور یہ ملا ملٹری الائنس ہیں۔ یہ مجلس وقتی ضرورت کیلئے بلائی گئی ہے، ضرورت پورا ہونے پر پھر مجلس کو برخاست کر دیا جائے گا۔" اس کے علاوہ 12 جولائی 2018ء کو بھی ڈیرہ مراد جمالی میں جے یو آئی (ف) کے مرکزی کونسل کے ممبر حاجی رحمت اللہ بنگلزئی کی رہائشگاہ پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا شیرانی نے کہا کہ "بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم ایم اے ایک جیسی جماعتیں ہیں۔ جب کسی کو ضرورت پڑتی ہے تو ایسی جماعتیں بنائی جاتی ہیں۔" یعنی جبکہ خود جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی رہنماء ایم ایم اے کی بحالی سے مطمئن نہ ہوں، تو اس اتحاد سے متعلق اور کیا کہا جاسکتا ہے۔؟
علاوہ ازیں جے یو آئی (ف) بلوچستان کی صوبائی قیادت اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہیں، جن میں مولانا محمد شیرانی، مولانا عبدالواسع اور مولانا نور اللہ شامل ہے۔ اس حوالے سے "جمعیت علماء اسلام (ف) بلوچستان کی صوبائی قیادت میں اختلافات" کے عنوان سے اسلام ٹائمز پر پہلے ہی مفصل تحریر کے ذریعے تفصیلی روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ جے یو آئی (نظریاتی) جو کہ جے یو آئی (ف) کی ہی ایک شاخ ہے، اس نے کوئٹہ کی سطح پر ہزارہ قوم کے قتل میں ملوث بدنام زمانہ گروہ کالعدم اہلسنت والجماعت کے رمضان مینگل کیساتھ یکجاء ہوکر مشترکہ انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اب ایک ایسی مذہبی سیاسی جماعت کی کیسے حمایت کی جاسکتی ہے، جو خود اندر سے اختلافات کا شکار ہوکر ہمارے ہی قاتلوں سے الائنس کی حامی بھرتی ہو۔؟
آخر میں مجلس وحدت مسلمین کے امیدواروں سید محمد رضا اور برکت علی بھیاء کی بات کی جائے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں میں بھی یقیناً شخصی اور ذاتی مسائل ہونگے، لیکن بحیثیت سیاسی جماعت مجلس وحدت مسلمین کی پالیسی ہمیشہ شیعہ ہزارہ قوم کے حقوق کے تحفظ کیلئے کارگر ثابت ہوئی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض ہوا کہ 2013ء کے احتجاجی دھرنوں میں مجلس وحدت مسلمین کے ملک گیر احتجاج کی بدولت ہی صوبائی حکومت برطرف ہوئی۔ نہ صرف یہ بلکہ گذشتہ دو مہینے قبل ایم ڈبلیو ایم کی احتجاجی کال کی وجہ سے ہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کوئٹہ آکر شیعہ ہزارہ قوم کے تحفظ کی ضمانت دینا پڑی۔ شیعہ ہزارہ قوم کا مسئلہ پاکستان بھر میں آباد شیعہ ملت سے ہرگز الگ نہیں، اس لئے ہزارگی اور قوم پرستی کے خول میں رہتے ہوئے یا بلوچ و پشتون اقوام کو اپنی رہبری دیکر قومی بقاء کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا، بلکہ پورے پاکستان میں آباد چھ کروڑ شیعہ ملت کیساتھ یکجاء ہوکر کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ قوم اپنے حقوق کا دفاع بہتر طریقے سے کر سکتی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کی پالیسی ہی یہی ہے کہ پہلے مرحلے میں پاکستان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو، تاکہ پاکستان کی کوئی بھی پالیسی شیعہ ملت کے خلاف نہ بنے جبکہ دوسرے مرحلے میں خود ملکی و ریاستی پالیسی بنانے والوں میں حصہ دار بننا ہے، کیونکہ چھ کروڑ آبادی ہونے کی حیثیت سے شیعہ ملت کا پاکستان میں یہ حق بنتا ہے کہ وہ "پالیسی میکرز" کا حصہ بنیں۔ لہذا جس طرح پاکستان بھر کی شیعہ ملت نے 2013ء میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے انقلابی تحریک کا آغاز کیا، بالکل اسی طرح انتخابی میدان میں بھی حق و باطل کے درمیان فرق کو جانتے ہوئے پاکستان بھر کے شیعہ ملت کو اپنے قومی و دینی فریضے کو ادا کرنا چاہیئے۔ اپنے ایک ووٹ کی حیثیت کو بھی کم سمجھنا ناانصافی ہوگا، کیونکہ ہر شخص اگر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اللہ تعالٰی پر توکل کرے تو نتیجہ ہمیشہ مثبت ہوتا ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰