تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
1980ء کا سال تشیع پاکستان کی طاقت کا مظہر تھا، اس سال کو اسلام آباد میں ملت تشیع پاکستان نے ایک عظیم کنونشن کا انعقاد کیا۔ یہ کنونشن ہی تشیع پاکستان کی جدید تاریخ کا سنگِ بنیاد ثابت ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہماری قوم اندرونی اختلافات کے باوجود ایک ہی قیادت کے زیر سایہ متحد تھی، چنانچہ قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین کے حکیمانہ و جراتمندانہ اقدامات سے اس ملت کو ایک عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ اس عظیم تاریخی کنونشن کے پسِ منظر کو جانیں اور موجودہ حالات میں اس سے رہنمائی حاصل کریں۔ اس دور میں پاکستان کی متشدد مذہبی جماعتوں کے تعاون سے فوجی انقلاب کامیاب ہوچکا تھا اور جنرل ضیاء الحق جو کہ خود بھی فکری لحاظ سے ایک متشدد مذہبی خیالات کا حامل تھا، اس نے قائد اعظم اور اقبال کی فکر کی مخالف جماعتوں اور تنظیموں مثلاً جمعیت علماء اسلام (سابقہ جمعیت علماء ہند) اور جماعت اسلامی کو سرکاری سرپرستی سے خوب نوازا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پاکستان جس کو اسلامی جذبے کے تحت شیعہ اور سنی مسلمانوں نے ملکر بنایا تھا، اس کو رسمی طور پر ایک خاص مذہب و مسلک کا پاکستان بنانے کی کوشش کی گئی، جسے وہ شیعہ قیادت کے بروقت اقدام کی وجہ سے رسمی شکل تو نہ دے سکے، لیکن عملی طور پر انکے اقتدار میں نفوذ کی وجہ سے کچھ ایسی ہی صورتحال بن گئی۔
پس یہ جان لیجئے کہ یہ قیام اس سوچ اور فکر کے خلاف تھا، جس کی سربراہی اس وقت کے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے پاس تھی۔ پھر علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد جب قیادت علامہ سید عارف حسین الحسینی نے سنبھالی تو قوم عملی طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی تھی اور ایک دھڑا علامہ سید حامد علی موسوی صاحب کی قیادت کا اعلان کرچکا تھا اور دوسرے دھڑے نے بطور قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی قیادت پر اتفاق کیا تھا۔ قائد شہید نے اپنے اخلاص و تقویٰ، حکمت و بصیرت اور جراتمندانہ اقدامات سے قوم میں ایک نئی روح پھونکی اور ملت کے اندر قومی شعور، جوش و ولولہ اور سیاسی بصیرت کو اجاگر کیا۔ دوسری طرف باہمی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے ملت کی ہر بااثر شخصیت کے پاس بھی گئے اور بارہا علامہ سید حامد علی موسوی صاحب سے ملاقات کرنے کی کوشش بھی کی، نیز باہمی اختلافات کے خاتمے کے لئے ہر قسم کی قربانی کا عندیہ بھی دیا۔ ان کی اس معتدل روش، اخلاق و کردار اور شجاعانہ و جراتمندانہ اقدامات سے ملت کی اکثر تنظیمیں اور ادراے انکی قیادت کے زیر سایہ آگئے۔
انہوں نے تشیع پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملت کے اپنے مستقل سیاسی تشخّص کی بات کی اور انہیں سیاسی طور پر مضبوط اور طاقتور کرنے کا عہد کیا اور بھرپور انداز سے سیاسی عمل میں شمولیت پر زور دیا۔ انہوں نے اپنی ہم وطن سیاسی قوتوں کے ہمراہ ایوانوں میں اپنے ترجمان و نمائندگان بھیجنے اور وزارتیں حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ یوں سیاسی طور پر سرزمین پاکستان پر ایک ایسا سیاسی نظام لانے کا اعلان کیا، جو شیعہ اور سنی سب مسلمانوں کے لئے قابل قبول ہو اور ضیاء الحق کی اتحادی جماعتوں یعنی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے نظریئے کو مسترد کیا۔ پہی شہید کے وہ افکار و نظریات تھے، جنہیں زندہ رکھنے کی امام خمینی نے اپنے تعزیتی بیان میں پاکستانی قوم کو تاکید کی تھی اور یہی انکی روش تھی کہ آج تیس سال گزر جانے کے باوجود ملت کا ہر فرد انہیں یاد کرتا ہے۔ یقیناً اگر انہیں شہید نہ کیا جاتا تو آج پاکستان کا سیاسی نقشہ کچھ اور ہوتا اور آج کسی بھی مسلک اور مذہب کو محرومی کا احساس نہ ہوتا اور پاکستان دنیا کے نقشے پر اتحاد بین المسلمین اور مکتب تشیع کے مابین وحدت کا ایک قابل تقلید مظھر اور بہترین نمونہ ہوتا۔
گذشتہ تقریباً دس سال سے شہید قائد کے معنوی فرزند ملک بھر سے اور بیرون ملک بھی مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہیں، شہید قائد کے یہ معنوی فرزند ملت کو ہر لحاظ سے طاقتور بنانے اور وطن عزیز کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مخلص و بابصیرت اور بہادر و شجاع عالم باعمل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی سربراہی میں میدان عمل میں کوشاں ہیں اور حکمرانوں کے پریشر اور شکنجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، نیز تکفیریوں کے تیروں اور حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ قائد شہید کے وارث ان مخلص اور نڈر افراد کو اس وقت قوم کی حمایت کی ضرورت ہے۔ قوم ضرور غور و فکر کرے کہ 25 جولائی 2018ء کو ووٹ کسے دینا ہے!؟ ہماری قوم کے ہر باشعور شخص سے اپیل ہے کہ وہ مندرجہ ذیل امور پر خاص توجہ دے:
1۔ گھر سے نکل کر موثر انداز میں الیکشن میں حصہ لیں اور اپنا قیمتی ووٹ ضرور کاسٹ کریں، چونکہ یہ ہماری قومی تاریخ کا تسلسل اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔
2۔ مہر لگاتے وقت ذاتی و علاقائی اور مذہبی تعصب کی بنا پر نہیں بلکہ پاکستان کے وسیع تر مقادات کو مدنظر رکھیں، کسی پاکستان دشمن قوت کے ایجنٹ اور وطن کے خائن اور چور کو ووٹ نہ دیں، خواہ اس پارٹی کا آپکے علاقے میں الیکشن کا امیدوار خود قدرے بہتر ہی کیوں نہ ہو. یہ کل پارلیمنٹ میں انکی بالا دستی کا سبب بن سکتا ہے۔
3۔ کرپشن و تکفیریت مافیا سے نجات حاصل کرنے کے لئے اور ان پر پارلیمنٹ کا راستہ تنگ کرنے کے لئے پاکستان بھر میں بالعموم انتخابی نشان "بلا" پر مھر لگائیں۔
4۔ اپنی پارٹی کے تشخّص کی حفاظت اور اپنی آواز کو پارلیمنٹ ہاؤسز میں پہنچانے کے لئے اور ملت کو سیاسی طور پر طاقتور بنانے کیلئے اپنے انتخابی نشان "خیمہ" پر مہر لگائیں۔
5۔ تکفیریت کا راستہ روکنے کے لئے اور محب وطن قوتوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانے کے لئے جس جس علاقے میں آزاد امیدواروں اور مختلف اتحادیوں نے ہماری بابصیرت لیڈرشپ سے انتخابی الائنس کا اعلان کیا ہے، وہاں پر ((گھڑا، گھوڑا)) یا جو بھی انتخابی نشان ہے، اس پر مہر لگائیں۔
*پاکستان زندہ باد* *وطن عزیز پائندہ باد* /۹۸۸/ ن۹۴۰