تحریر: ثاقب اکبر
12ربیع الاول سے لے کر 17ربیع الاول تک دنیا بھر میں ”ہفتہ ¿ وحدت“ کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد اسلام کے بطل جلیل امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے رکھی تھی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مختلف روایات کی بنیاد پر تقریبات مختلف ایام میں منعقد ہوتی چلی آرہی ہیں۔ مسلمانوں کا ایک گروہ اگر 12ربیع الاول کو میلاد مصطفیٰ کے دن کے طور پر مناتا ہے تو دوسرا 17ربیع الاول کو آنحضرت کی ولادت باسعادت کے یوم کے عنوان سے تقریبات اور پروگرام منعقد کرتا ہے۔ اس کی بنیاد چونکہ باہمی رقابت اور آویزش پر نہیں ہے بلکہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آنے والی روایات کے پیش نظر مختلف دنوں کو ایک ہی عنوان سے منایا جاتا رہا ہے، تاہم سب مسلمان پیغمبر اسلام کی محبت سے سرشار ہو کر آپ کے میلاد مبارک کی خوشی مناتے ہیں۔
امام خمینی ؒنے مسلمانوں کے مابین وحدت اور اتحاد پیدا کرنے کے لئے 12 ربیع الاول تا 17 ربیع الاول کو ہفتہ وحدت قرار دیا، تاکہ محبوب خدا پیغمبر خاتم نبی رحمت کی ولادت کی خوشی پورا ہفتہ منائی جاتی رہے اور باہمی محبت و الفت بھی برقرار رہے بلکہ فروغ پذیر ہو۔ امام خمینیؒ کے اس اقدام کو پوری دنیا میں مسلمانوں نے سراہا اور انہیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے ان کے دل کی بات کہی گئی ہے، لہٰذا اب پوری دنیا میں ہفتہ بھر بلکہ اس سے بھی زیادہ میلاد مصطفیٰ کی مناسبت سے جلوس نکلتے ہیں، محفلیں منعقد ہوتی ہیں، نعتیں فضاﺅں میں گونجتی رہتی ہیں، سیمینار منعقد ہوتے ہیں، کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور نعتیہ مشاعرے منعقد ہوتے ہیں۔ یوں شعر و سخن کے ذریعے، ادب و نثر کے ذریعے اور خطاب و تقریر کے ذریعے نبی پاک سے اظہار محبت و عقیدت کے سلسلے جاری رہتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیئے۔ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر ان محفلوں میں بغیر کسی تمیز و تفریق کے شریک ہوتے ہیں اور پوری دنیا پر ظاہر کرتے ہیں کہ اس مرکز پر ہم سب ایک ہیں۔ اس طرح سے یہ موقع بھی میسر آتا ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کے سامنے متحد ہو کر اپنے پیغمبر کی تعلیمات و سیرت کو پیش کرسکیں۔
ہفتہ وحدت ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ بڑے کام بڑی روحوں سے ظہور میں آتے ہیں اور بڑی روحیں ہی اعلیٰ مقاصد و اہداف کی طرف قوموں کی راہنمائی کرسکتی ہیں۔ کم نگہی، کوتاہ نظری اور پست پروازی انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ پست خیالی انسان کو اعلیٰ مقاصد اور بڑی شخصیات کی عظمت کو سمجھنے میں بھی حائل ہو جاتی ہے۔ امام خمینیؒ چونکہ ایک عظیم روح کے حامل تھے، انہوں نے مسلمانوں کو بیدار کرنے اور پھر متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا، وہ استعماری طاقتوں اور سامراجی طاغوتوں کے خلاف سینہ سپر تھے، وہ مستضعفین کی حمایت کا عزم لے کر میدان میں آئے تھے اور وہ برہنہ پا انسانیت کا درد سینے میں رکھتے تھے، اس لئے وہ ہمیشہ مسلمانوں اور دیگر محروم انسانوں کو آپس میں جوڑنے کی فکر میں رہے۔ اسی لئے ان کے پرسوز دل سے ایسی باتیں ظاہر ہوتی تھیں، جو مسلمانوں کو باہم قریب کرنے کا ذریعہ بنتی تھیں۔ ہفتہ وحدت انہی میں سے ایک ہے۔ پھر رسول اکرم سے بڑھ کر کون سی ہستی ہوسکتی ہے، جسے مرکز وحدت و اتحاد قرار دیا جائے، جس کے پرچم تلے ساری انسانیت کو جمع ہونے کی دعوت دی جائے، جس کا دامن اللہ کی حبل متین جان کر تھام لیا جائے اور جو انسانوں کی نجات کا ضامن قرار پائے۔
پیغمبر اسلام ہی وہ ہستی ہیں، جنھیں اولین و آخرین میں رحمت للعالمین ہونے کا شرف حاصل ہے، جنھیں اللہ نے ساری انسانیت کے لئے ہادی بنا کر مبعوث کیا ہے، جو کمال بشریت کی بلند ترین چوٹی پر جلوہ فگن ہیں، جنھیں ساری امتوں پر شاہد بنا کر بھیجا گیا ہے، جو لیکون للعالمین نذیرا کے مصداق ہیں، جو صاحب کوثر ہیں، جو حامل معراج ہیں، جو اول مخلوق ہیں، جو خاتم النبیین ہیں، جو کمال معارف کے نزول کا مقام ہیں، جو جبریل کو ورطہ حیرت میں ڈال کر مقام سدرہ سے اس پار کی منزل کے راہی ہوگئے، جو عظمتوں کے امین ہیں، جن کے ذکر کو رفعت بخشی گئی ہے، پیچھے رہ جانے والوں کو ان تک پہنچنے کی جدوجہد کرنا چاہیئے اور آگے بڑھ جانے والوں کو اسی مرکز و محور کی طرف واپس آجانا چاہیئے۔ کائنات میں آپ کی حیثیت مقام ہدایت کے جوف و مرکز کی ہے۔ لہٰذا انہی کو وحدت و اتحاد کا مرکز ہونا چاہیئے اور انہی کی یاد منانے کے لئے سب کو دل و جان سے اکٹھا ہو جانا چاہیئے۔ ہفتہ وحدت ہمیں اسی شعور اور جذبے کے ساتھ منانا چاہیئے۔
یہ ہفتہ مناتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ محبت کرنے والوں کی اپنے محبوب کے لئے اظہار کی اپنی اپنی روشیں ہیں، شاعر مختلف بحروں، زمینوں، قافیوں اور ردیفوں سے سجا کر نعت کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ زمزمہ خوان ان گیتوں کو مختلف سُروں میں گنگناتے ہیں۔ خطیب اپنے اپنے انداز سے گلہائے محبت نچھاور کرتے ہیں۔ بچے، بوڑھے، عورتیں، مرد سب محبوب خدا سے اپنی محبت و مودت کا اظہار اپنے اپنے انداز سے کرتے ہیں، لیکن اس سب گوناگوں اندازوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے ایک محبوب اور اس سے محبت۔ جس کی جتنی معرفت ہے اور جس میں اظہار کا جتنا ملکہ اور موقع ہے، اسی مناسبت سے محبوبوں کے اس محبوب سے اظہار محبت کرتا ہے۔ ہمیں نبی کریم سے محبت کی ہر ادا کو محبوب جاننا چاہیئے۔ مختلف جغرافیوں، مختلف خطوں اور مختلف علاقوں کے لوگ اپنی اپنی زبانوں میں نبی کریم سے اظہار تعلق کرتے ہیں۔ مختلف رنگوں کے لوگ اسی کیفیت میں ڈھلے ہوتے ہیں۔ ثقافتوں کے مختلف مظاہر ہیں، لیکن ان مظاہر کی ایک ہی روح ہے اور وہ ہے محبت محبوب کبریا۔
یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں آپس میں جوڑتا ہے، باہم مربوط کرتا ہے اور سینوں میں یکتائی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اگر بقول غالب : سب رقیبوں سے ہیں ناخوش پر زنان مصر سے _ ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہوگئیں ۔ یہ درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہے کہ نبی کریم سے محبت کے ہر مظہر کو ہمیں عزیز جاننا چاہیئے اور ہر محبت کرنے والے کی طرف محبت کی آنکھ اٹھا کر دیکھنا چاہیئے۔ آئیے اسی جذبے سے ہفتہ ¿ وحدت مناتے ہیں۔ /۹۸۸/ ن ۹۴۰