رپورٹ: ایس اے زیدی
گذشتہ دنوں ضلع اورکزئی کے شیعہ نشین علاقہ کلائیہ میں مدرسہ انوار اہلبیت (ع) کے قریب ہونے والے بم دھماکہ کے نتیجے میں 35 افراد شہید جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوئے، واضح رہے کہ اورکزئی میں اس سے قبل بھی دھماکے اور خودکش حملے ہوئے ہیں، جن میں اہل تشیع قبائل کو ہی نشانہ بنایا گیا اور اب تک سینکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اس ضلع میں طالبان دہشتگردوں کے نفوذ کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں شیعہ خاندانوں کو نقل مکانی کرنی پڑی تھی، وہ گھرانے جو کسی زمانہ میں مالدار اور کروڑوں کی جائیدادوں کے مالک ہوا کرتے تھے، اس نقل مکانی کی وجہ سے بہت متاثر ہوئے، شہروں میں کرایہ کے مکانوں پر رہنے پر مجبور ہوئے اور اب تک وہ خاندان اپنے علاقوں میں واپس جاکر آباد نہیں ہوسکے۔ اورکزئی میں شیعہ آبادی لگ بھگ 15 سے 20 فیصد ہے، لیکن جب بھی یہاں دہشتگردی ہوئی شیعہ ہی نشانہ بنے، اورکزئی کا علاقہ ڈبوری ہو، کوریز یا کلائیہ، یہ وہ علاقے ہیں جہاں اس وقت سکیورٹی انتہائی سخت ہے، مخصوص کارڈز اور شناخت کے بغیر کوئی شخص ان علاقوں میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود کلائیہ میں ہونے والے اس دھماکے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد یہاں کے حالات میں کچھ بہتری ضرور آئی تھی۔
اورکزئی میں رہنے والے اہل سنت قبائل نے کسی زمانہ میں طالبان دہشتگردوں کو بھرپور سپورٹ کیا اور ان کے سہولت کار ہونے تک کا کردار ادا کیا، ان کی جانب سے اس عمل کو اپنی جان بچانا کہیں، مصلحت، مجبوری یا مسلکی اختلاف و تعصب۔ تاہم اس طرز عمل کی وجہ سے اورکزئی کے امن و امان کو شدید نقصان پہنچا اور کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ گو کہ اب اورکزئی کے کئی اہلسنت مشران کو بھی اپنی اس غلطی کا احساس ہو رہا ہے، اورکزئی میں ہونے والے اس حالیہ دھماکہ نے کئی گھروں کے چراغ بجھا دیئے۔ وطن عزیز پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے باعث ہر طبقہ متاثر ہوا، افواج پاکستان سے لیکر پولیس، ایف سی اور دیگر سکیورٹی ادارے، مساجد، چرچ، دربار و مزاروں، میلاد کی تقریبات، جلوس، امام بارگاہوں، جنازوں حتیٰ کہ ہر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا پاکستانی اس دہشتگردی کا نشانہ بنا، تاہم گذشتہ تین سے چار دہائیوں کے دوران اہل تشیع شہریوں کو مسلک و عقیدہ کی بنیاد پر ٹارگٹ کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ اب تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ شیعہ نسل کشی کا یہ سلسلہ سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ کبھی اس قتل و غارت گری کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت لشکر تشکیل دیئے گئے، کبھی سپاہیں بنائی گئیں، کبھی تحریکیں قائم کی گئیں تو کبھی جند بنائے گئے۔
ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 ہزار سے زائد اہل تشیع پاکستانی شہری شہید ہوچکے ہیں۔ کراچی، گلگت، ڈیرہ اسماعیل خان، پاراچنار، کوئٹہ سمیت ملک کے ہر علاقہ میں شیعہ شہریوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ یہ سوال تو حساس ہے لیکن اپنی جگہ اہمیت ضرور رکھتا ہے کہ مذہب و عقیدہ کے نام پر پاکستان میں شیعہ ہی نشانہ پر کیوں ہے۔؟ ضلع کرم میں دو مسالک آباد ہیں، پاراچنار میں شیعہ اور صدہ اور اس کے گرد و نواح میں اہلسنت، کیا وجہ ہے کہ پاراچنار میں مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسی علاقہ سے 35 کلومیٹر دور واقعہ اہلسنت علاقہ صدہ میں لوگ پرامن طریقہ سے اپنی عبادتوں کی انجام دہی اور زندگی گزارنے میں مصروف ہیں۔؟ (گو کہ دہشتگردی جہاں بھی ہو اور جس کیخلاف بھی ہو وہ قابل مذمت ہے)۔ کوئٹہ میں ہزارہ اہل تشیع شہری علمدار روڑ اور ہزارہ ٹاون سے باہر نکلنا اپنی جان سے کھیلنے کے مترادف سمجھتے ہیں جبکہ باقی شہری جن میں بلوچ و پشتون اور دیگر شامل ہیں، وہ آزادی کیساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ کراچی میں شیعہ آبادیوں میں سکیورٹی انتظامات کے بغیر گزارہ ممکن نہیں، اسی طرح گلگت، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہاٹ سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں شیعہ شہری محاصروں کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
گذشتہ دنوں پشاور سے پاراچنار جانے کا اتفاق ہوا، جمعۃ المبارک کا دن تھا، گاڑی دن ڈیڑہ بجے کے قریب ہنگو شہر پہنچی، ڈرائیور کو گاڑی میں موجود سواریوں نے کہا کہ نماز جمعہ کیلئے گاڑی کہیں کسی مسجد کے قریب روکیں، اسی دوران ہنگو شہر میں موجود ایک مسجد کے قریب ڈرائیور نے گاڑی روکی۔ مسجد کے دروازے پر لگے بورڈ کو پڑھ کر اندازہ ہوگیا کہ اس مسجد پر کالعدم فرقہ پرست جماعت سپاہ صحابہ کا اثر و رسوخ ہے۔ مسجد میں نماز شروع ہونے کے قریب تھی، لگ بھگ دو ہزار کے قریب نمازی اس مسجد میں موجود تھے، تاہم مسجد کے قریب نہ تو کوئی پولیس ناکہ موجود تھا، نہ سکیورٹی رضاکار اور نہ ہی پولیس نفری۔ صرف ایک ہی پولیس اہلکار مسجد کے دروازے پر کرسی رکھے بیٹھا تھا اور وہ بھی موبائل فون میں مصروف تھا، جبکہ اس مسجد کے ڈیرھ سے دو کلومیٹر کے فاصلہ پر موجود شیعہ مدرسہ جامعہ العسکریہ اور مسجد فیض اللہ کے گردونواح میں سکیورٹی انتہائی سخت ہوتی ہے۔ میں کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ اس مسجد میں نماز پڑھنے والوں کو کیا دہشتگردوں سے کوئی خطرہ نہیں۔؟ ہمارے ملک میں اکثر حلقوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ دہشتگردی نے کسی خاص مسلک کو نہیں بلکہ ہر مکتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا نشانہ بنا اور اگر مسلکی لحاظ سے دیکھا جائے تو کوئی مسلک اس دہشتگردی سے نہیں بچ سکا، مکتب دیوبند اور اہلسنت بریلوی کے کئی جید علمائے کرام اور پیروکار بھی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ مگر تناسب کی بات کی جائے تو جہاں اہل تشیع مکتب فکر کے 90 فیصد لوگ دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں تو دوسرے مکاتب فکر کے 10 فیصد عوام و خواص متاثر ہوئے۔ دہشتگردوں کا مذہب بھی ہے، آئیڈیالوجی بھی اور مسلک بھی۔ پاکستان میں اہل تشیع مکتب فکر کے پیروکاروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا گیا اور بنایا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد عالمی سطح پر اس مکتب فکر کے پیروکاروں کا امریکہ، اسرائیل اور اسلام کا لبادہ اوڑھے بعض نام نہاد عرب مسلم ممالک کی اسلام اور مسلمانوں کیخلاف کی جانے والی سازشوں کے سامنے ڈٹ جانا ہے، کیونکہ استعماری قوتوں کو معلوم ہے کہ یہی مکتب فکر اسلام کا صف اول میں دفاع کرسکتا ہے، ہر مسلک کے پیروکار کی مدد و نصرت کرسکتا ہے اور اسلامی معاشرہ کو پروان چڑھا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے اہل تشیع شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ برادر اسلامی ملک ایران کے بعد سب سے بڑی شیعہ آبادی پاکستان میں موجود ہے، جو عالمی اور مقامی سطح پر موجود اسلام دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا ثابت ہو رہی ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰
منبع: اسلام ٹائمز