‫‫کیٹیگری‬ :
14 December 2018 - 20:42
News ID: 438891
فونت
صدی کا معاملہ؛ نئی سازش کے عنوان سے نشست میں ؛
حوزہ و دانشگاہ کے اساتذہ نے بیان کیا : صیہونی حکومت ، امریکا اور عربی رجعت ممالک نے « صدی معاملہ » منصوبے کے نفاذ کے لئے بہت بڑی منصوبہ بندی کی ہے اور خاموشی سے اپنے اس ناپاک مقصد کے حصول میں مشغول ہیں ۔
دکتر سعیدی

امریکا کے صدر جمہور ڈونالڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد صیہونی حکومت کے ساتھ عربی ممالک کے درمیان صلح منصوبہ جو امریکا کے گذشتہ صدر اوبامہ کے دور میں ناکام ہو گیا تھا دوبارہ امریکی حکومت کے پروگرام میں سر فہرست ہو گیا ہے ، لیکن اس بار صیہونی حکومت اور خود مختار حکومت کے درمیان کچھ گفتگو کی بات نہیں ہے بلکہ ٹرمپ نے ایک جامع پالیسی کے ذریعہ فلسطین تنازعہ کو ختم کرنے کی سازش شروع کی ہے اور بالیسی کو « صدی معاملہ » منصوبہ کا نام دیا ہے ۔

صدی معاملہ امریکا اور صیہونی حکومت کی ایک نئی سازش ہے فلسطین کے باقی سرزمین پر مزید قبضہ کرنے اور فلسطین کے پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپسی کے حق کو سلب کرنے اور قبضہ شدہ فلسطین میں ۱۹۴۸ سے بچے ہوئے فلسطینوں کو وہاں سے ہٹانا ، اردن کو کرانہ باختری کے دئے گئے بعض حصہ کو تسلیم کرنا ، فلسطین ملک کو غزہ اور صحرای سینا کے بعض حصہ میں تشکیل دینا اور ہر طرح کے فلسطین مقاومت کو ختم کرنا ہے ، اس امر کے مقدمات کے لئے عربی ممالک کے ساتھ صیہونی حکومت کے روابط کو معمول میں لانا اور ایران سے مقابلہ کے لئے عربی ناٹو کی تشکیل دینے کا کام شروع کر دیا گیا ہے ۔

لیکن ان تمام تفاصیل کے باوجود ابھی تک امریکا کی طرف سے مشخص و کامل پالیسی پیش نہیں ہوا ہے اور اس سازش کے انجام پانے کے لئے بہت سارے موانع موجود ہیں کہ ان میں سے ایک مقاومت محور کی نظامی و آپریشن بخش میں وسعت و ترقی ہے اور خود مختار حکومت کی مخالفت اور فلسطین کی مقاومت گروہ کی اس منصوبے کی مخالفت اور حامی ممالک کے اندرونی اختلاف کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔

اس موضوع کے مختلف حصہ کو بیان کرنے کے لئے رسا نیوز ایجنسی نے « اسلامی تہذیب؛ استقامتی حکمت عملی» کی سلسلہ وار نشست «صدی کا معاملہ؛ نئی سازش» کے عنوان سے اس ھفتہ ۱۳ دسمبر ۲۰۱۸ عیسوی بروز جمعرات ۹ سے ۱۲ بجے دن میں عالمی تجریہ کاروں کی شرکت کے ساتھ الغدیر ایڈوٹیریم معلم روڈ قم المقدس ایران میں منعقد کی ۔

اس نشست کے مہمان مقرر یونیورسیٹی کے استاد ڈاکٹر مجتبی رحماندوست اور حوزہ علمیہ کے مشہور و معروف استاد حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر احمد سعدی نے سامراجی طاقت کی ناپاک سازش پر مختلف ذارویہ سے تحلیلی گفتگو کی ۔

صدی کا معاملہ سازشی منصوبہ دس سال قبل سے شروع ہو چکا ہے

ڈاکٹر سعیدی نے اس نشست میں صدی معاملہ کو ایک گذشتہ و آئندہ سے مربوط منصوبہ جانا ہے اور بیان کیا کہ صدی معاملہ جس کے انجام دینے کو دشمن کوشش کر رہے ہیں وہ سائکس – پیکو معاہدے جو ۹ مئی ۱۹۱۶ اور بیانی بالفور ۲ نومبر ۱۰۱۷ میں ہوا ہے اس کو ۲۰۱۷ میں زندہ کرنے اور اس کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش میں ہیں ۔

انہوں نے اس بیان کے ساتھ کہ مغربی یہودیوں سے نجات پانے کی کوشش میں تھے کہا : جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے ، یورپی یہودیوں سے خوش نہیں تھے اس وجہ اس کوشش میں تھے کہ ان کے لئے کوئی جگہ تلاش کر کے ان کو وہاں ٹھکانے لگا دیا جائے ۔ صحرای سینا، کنگو و فلسطین یہودیوں کو بھیجنے کے لئے یہ تین جگہ تھے اور یہ کہ صیہونی قابض فلسطین کی زمین پر اپنی موجودگی کی وجہ ان کی دینی لگاو کا دم جو بھر رہے ہیں وہ سراسر جھوٹ ہے کیوں کہ پہلے مختلف جگہ قبضہ کرنے کے لئے مد نظر رکھے ہوئے تھے اور اس کے بعد فلسطین میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ لیا گیا ۔

انہوں نے وضاحت کی : فلسطین دینی جرافیائی کے نقطہ نظر سے خطے میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اس وجہ سے بیسوی صدی کے ابتدا میں قرار پایا کہ یہ ملک برطانیہ کے چنگل سے آزاد ہوں لیکن بالفور بیانیہ کے بعد  فلسطین میں یہودی وطن بنانے کا قضیہ پیش کیا گیا ۔

یونیورسیٹی کے عالمی اسٹرٹیجیک بخش کے استاد نے اس بیان کے ساتھ کہ برطانیہ سن ۱۹۱۷ میں فلسطین پر قبضہ کر لیا بیان کیا : برطانیہ مصر کی فوج اور اس سر زمین سے استفادہ کرتے ہوئے آسانی سے فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو سکا ۔ برطانیہ تقریبا ایک لاکھ فوج فلسطین میں مستقر کیا ، لیکن ان کے اخراجات اور دوسری مشکلات باعث بنی کہ وہ فلسطین کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو گئے ؛ اس کے بعد اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ میں قطعنامہ ۱۸۱ صادر کر کے فلسطین کو دو ملک عبری و فلسطینی میں تقسیم کرنے کی منظوری دے دی ، اس روز فلسطین کی تقسیم کی بنیاد ڈال دی گئی ۔

انہوں نے فلسطین کو چار ادوار میں تقسیم کی اور بیان کیا : فلسطین اسلامی ، فلسطین عربی ، فلسطین فلسطینی و فلسطین عربی و اسلامی یہ فلسطین کی سیاسی نقطہ نگاہ سے چار تقسیم بندی ہے ۔

وی فلسطین را به چهار دوره تقسیم کرد و اظهار داشت: فلسطین اسلامی، فلسطین عربی، فلسطین فلسطینی و فلسطین عربی و اسلامی چهار دوره تقسیم بندی فلسطین از نظر نگاه سیاسی است.

یونیورسیٹی کے استاد نے بیان کیا : فلسطین اسلامی زمانہ میں شیخ عزالدین قسام کا اثر رسوخ و نفوذ دیکھنے کو ملتا ہے اور فلسطین فلسطینی دور میں یاسر عرفات جیسے شخصیت سامنے آتی ہے ۔

انہوں نے بیان کیا : فلسطین قبضہ کے ابتدائی برسوں میں غربی و رجعتی عربی ممالک کے ذریعہ صیہونیستوں کے ہاتھوں بیچ دی گئی ۔

حجت الاسلام سعدی نے فلسطین کے سلسلہ میں سعودی عرب کی حمایت ظاھری و دکھاوا جانا ہے اور بیان کیا : آل سعود حکومت کا صیہونی حکومت سے گہرے تعلقات نے فلسطین کے حاکموں کو صیہونی حکومت کے اختیار میں دے دیا ۔/۹۸۹/ف۹۵۵/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬