رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ھندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے جموں میں ایک دہائی سے رہائش پذیر روہنگیا مسلمان انتہا پسند ہندوؤں کی مہم کے خوف سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
جموں میں ہندو جماعتوں کی جانب سے ’جموں چھوڑو‘ مہم کی وجہ سے 6 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کی زندگی خطرے میں پڑگئی اور برسوں سے آباد روہنگیا مسلمان اچانک یہ علاقہ چھوڑ کر بنگلہ دیش اور دکن ہجرت پر مجبور ہوگئے۔
روہنگیا مسلمانوں کے انخلا کے لیے دباؤ 2017ء کے ابتدا سے شروع ہوگیا تھا لیکن گذشتہ برس سیاسی جماعت جموں و کشمیر نیشنل پینتھرز کی روہنگیا مسلمانوں کی بے دخلی کے لیے مہم کے آغاز پر اس دباؤ میں شدت آگئی اور جگہ جگہ ’جموں چھوڑو‘ کے پوسٹرز آویزاں کیے گئے۔
دوسری جانب گزشتہ برس نومبر میں حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کا ڈیٹا جمع کیا جانے لگا اور بائیو میٹرک رجسٹریشن کی جانے لگی جس کے بعد روہنگیا مسلمان اس خوف میں مبتلا ہوگئے کہ انہیں میانمار حکومت کے حوالے کردیا جائے گا۔
اس خوف کے پیش نظر نروال بالا میں مقیم سیکڑوں روہنگیا مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تاہم بنگلہ دیش کے سرحدی گارڈز نے انہیں روک دیا اور یہ افراد کئی دن اور راتیں زیرو پوائنٹ پر رہے۔ بعد ازاں 31 روہنگیا مسلمانوں کو تریپورہ پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔