رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عراق کے قومی سلامتی اور دفاع کے پارلیمانی کمیشن کے رکن مہدی تقی نے بتایا ہے کہ مسلح افواج کی مشترکہ کمان ملک میں قائم امریکی فوجی اڈوں اوران میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے جامع رپورٹ آئندہ دو روز کے اندر اندر مذکورہ کمیشن کے حوالے کردے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر مسلح افواج کے سربراہ جنرل عثمان الغانمی اور وزیر اعظم اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف عادل عبدالمہدی نے امریکی فوج سے متعلق معلومات پارلیمنٹ کے سپرد نہ کیں تو انہیں مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ امریکہ نے بھاری فوجی ساز و سامان مغربی عراق کے شہر الرمادی میں شام سے ملنے والی سرحدوں پر پہنچانا شروع کردیا ہے۔
میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ الانبار کے شہر الرمادی سے چار سو نوے کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علاقے التنف پہنچائے جانے والے فوجی ساز و سامان میں بھاری توپیں اور ریڈار بھی شامل ہیں۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب شامی فوج صوبہ دیر الزور میں داعشی دہشت گردوں کے آخری اڈے کو نابود کرنے کے لیے نئے آپریشن کا آغاز کرنا چاہتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ عراق سے امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
دسمبر دوہزار سترہ میں داعش کے خاتمے کے بعد سے عراقی عوام، سیاسی جماعتیں، ذرائع ابلاغ اور اہم شخصیات تمام غیر ملکی فوجیوں اور خاص طور سے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن امریکی حکام نہ صرف یہ کہ عراق سے نکلنے کو تیار نہیں بلکہ انہوں نے عراقی عوام کے خلاف اپنی دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں نیز اس ملک کے دفاعی ستون خاص طور سے عوامی رضاکار فورس حشدالشعبی کو کمزرو کرنے کی کوشش تیز کردی ہے۔
نئے سال کی تعطیلات کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر اعلانیہ دورہ عراق کے بعد سے عراقی عوام اور سیاسی حلقوں کی جانب سے، امریکی فوجیوں کے انخلا کے مطالبات شدت اختیار کرگئے ہیں۔/۹۸۹/ف۹۴۰/