رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس کے نمائندے خالد قدومی نے عالم اسلام کی ممتاز شخصیات اور دانشوروں پرزوردیا ہے کہ وہ صدی کے سازشی معاملے کے بارے میں ہوشیاراور آگاہ رہیں ۔
صدی کا معاملہ مشرق وسطی کے سیاسی حالات کے بارے میں ایک نئی اصطلاح ہے جسے امریکی حکومت نے فلسطینی حکومت اور اسرائیل کے درمیان سازشی معاملے کے لئےو ضع کیا ہے۔
صدی کے معاملے کے مطابق فلسطینی حکومت کو گذشتہ امتیازات کی نسبت کہیں زیادہ امتیازات اسرائیل کی غاصب حکومت کو دینے ہوں گے۔ اس سازشی معاملے پر رمضان المبارک کے بعد عمل درآمد شروع ہو جائےگا۔
تہران میں فلسطینی تنظیم حماس کے نمائندے نے صدی معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ آجکل سخت شرائط سے گزر رہا ہے امریکہ میں انتہا پسند حکومت کا اقتدار میں آنا، اسرائیل میں نیتن یاہو کی انتخابات میں کامیابی اور حکومت کی تشکیل نیز عرب ممالک میں باہمی اختلافات اس کی اصل وجہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بعض عرب ممالک کے بادشاہ اور رہنما در حقیقت اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے دوست ہیں۔ جنھوں نے عرب ممالک کا تمام سرمایہ مسلمانوں کے دشمنوں کے اختیار میں دے رکھا ہے اور وہی لوگ آج صدی معاملے میں بھی پیش پیش ہیں ۔
خالد قدومی نے کہا کہ عرب ممالک کے حکمرانوں کی کمزور اور امریکہ نواز پالیسیوں کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کو شدید نقصان پہنچا ہے اور عرب حکمراں در حقیقت فلسطینی عوام پر ہونے والے بھیانک جرائم میں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ شریک ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عرب ممالک کو مسئلہ فلسطینی کے منصفانہ حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ عرب ممالک میں اختلافات کی خلیج پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے عرب مالک آپس میں دست و گریباں ہیں۔
خالد قدومی نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں عالمی برادری اور دنیائے عرب کے سکوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام صدی معاملے کو ہرگز قبول نہیں کریں گے ، فلسطینی عوام اس کا بھر پور مقابلہ کریں گے اور ایسے شرائط میں ہمیں اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرناچاہیے۔