تحریر: سید اسد عباس
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد سے اپنے داماد اور مشیر خاص جیرڈ کشنر اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی جیسن گرین بلیٹ کے ہمراہ مل کر ایک منصوبہ کی تشکیل پر کام شروع کیا، جسے ٹرمپ ’’ڈیل آف سنچری ‘‘ یعنی صدی کا سودا قرار دے رہے ہیں۔ یہ سودا تاحال خفیہ ہے، جس کے مندرجات سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔
اسرائیل میں تعینات سابق سفیر ڈیوڈ فرائڈ مین کے مطابق اس سودے کے ذریعے اسرائیل کو مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے مل جائیں گے۔ سان فرانسسکو یونیورسٹی کی استاد رباب کا کہنا ہے کہ یہ سودا اسرائیل نواز استعماری منصوبہ ہے۔ رباب نے کہا کہ ٹرمپ، جیرڈ اور جیسن تینوں اسرائیل نواز، نسل پرست اور اسلامو فوبیا کے حامی افراد ہیں۔ اس ڈیل کا مقصد مسئلہ فلسطین کو اپنی ڈگر سے ہٹانا، اس ڈیل سے نبرد آزما ہونے کے لیے فلسطینیوں کو وہی کرنا ہوگا، جو وہ کر رہے ہیں یعنی مزاحمت۔
7 مئی 2019ء کی اشاعت میں ایک اسرائیلی اخبار Israel Hayom نے اس خفیہ ڈیل کے چند حصوں کو شائع کیا ہے۔ اخبار کے مطابق ان مندرجات پر مشتمل ایک دستاویز اسرائیل کے دفتر خارجہ کے افسران کے مابین تقسیم کی گئی۔ یہ اسرائیلی اخبار، نیتن یاہو کے قریب تصور کیا جاتا ہے۔
دستاویز کے مطابق یہ سودا تین پارٹیوں اسرائیل، پی ایل او اور حماس کے مابین طے پائے گا۔ دستاویز کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ کے علاقوں میں نئے فلسطین کے نام سے ایک ریاست تشکیل دی جائے گی، ایک سال کے بعد اس ریاست میں انتخابات ہوں گے اور فلسطینی قیدیوں کو تین برس کے عرصے میں مرحلہ وار رہا کیا جائے گا۔ دستاویز کے مطابق یروشلم تقسیم نہیں ہوگا جبکہ اسرائیل اور نئی فلسطینی ریاست ذمہ داریاں تقسیم کریں گی۔
یروشلم میں رہنے والے فلسطینی نئی فلسطینی ریاست کے شہری ہوں گے، تاہم اسرائیلی میونسپلٹی زمین سے متعلق معاملات کو دیکھے گی۔ نئی فلسطینی ریاست اسرائیلی میونسپلٹی کو ٹیکس دے گی، جس کے بدلے میں وہ یروشلم میں رہنے والے شہریوں کی تعلیم کی ذمہ دار ہوگی۔
اس وقت یروشلم میں تقریباً چار لاکھ سے زائد فلسطینی بستے ہیں۔ اسرائیل ان فلسطینیوں کے ایک خاص عرصے تک شہر سے دور رہنے کی صورت میں ان کی شہریت کو معطل کرسکے گا۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی تعمیرات جو کہ عالمی قوانین کے رو سے غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں، کو باقاعدہ طور پر اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لیا جائے گا۔
اسرائیلی اخبار میں شائع ہونے والی اس دستاویز کے مطابق مصر نئی فلسطینی ریاست کے لیے غزہ کے قریب کچھ علاقہ پیش کرے گا، جس پر ائیر پورٹ، فیکٹریاں اور زرعی سیکٹر قائم کیا جاسکے گا۔ فلسطینی شہریوں کو اس علاقے میں قیام کی اجازت نہیں ہوگی۔ دستاویز کے مطابق مصر کا یہ علاقہ بعد ازاں مشخص کیا جائے گا اور اس پر عمل درآمد ڈیل پر دستخطوں کے پانچ سال کے عرصے میں ہوگا۔
غزہ اور مغربی کنارے کو آپس میں جوڑنے کے لیے اسرائیلی زمین سے تیس میٹر بلند ایک ہائی وے تعمیر کی جائے گی۔ چین اس کے لیے درکار پچاس فیصد رقم مہیا کرے گا۔ سائوتھ کوریا، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکا اور یورپی یونین ہر ایک اس ہائی وے کے اخراجات کا دس فیصد مہیا کریں گے۔
دستاویز کے مطابق امریکا، یورپی یونین اور خلیجی ریاستیں اس سودے پر سرمایہ کاری کریں گے، جس کی کل لاگت تیس بلین امریکی ڈالر یا چھے بلین ڈالر سالانہ ہے۔ اس سرمایہ کاری کا مقصد پانچ برس میں نئی فلسطینی ریاست میں منصوبوں کی تکمیل ہے۔ دستاویز کے مطابق امریکا اس منصوبے کا بیس فیصد، یورپی یونین دس فیصد اور خلیجی ریاستیں اس منصوبے کے لیے ستر فیصد سرمایہ کاری کریں گی۔ نئی فلسطینی ریاست اپنی فوج نہیں بنا سکے گی بلکہ فقط پولیس کا محکمہ قائم کرنے کی مجاز ہوگی۔ اسرائیل اور نئی فلسطینی ریاست کے مابین ایک معاہدہ ہوگا، جس کے تحت نئی فلسطینی ریاست خارجی حملے کی صورت میں اپنے دفاع کے لیے اسرائیل کو ادائیگی کرے گی۔ عرب ریاستیں اس سلسلے میں اپنا حصہ دیں گی۔ سودے پر دستخط کے بعد حماس کو اپنے تمام تر ہتھیار بشمول نجی ہتھیار مصر کے حکام کے سپرد کرنے ہوں گے۔ ہتھیاروں کی سپردگی کی صورت میں حماس کے اراکین کو عرب ریاستوں کی جانب سے ماہانہ تنخواہ دی جائے گی۔
غزہ کے بارڈر اس علاقے میں ائیر پورٹ اور سی پورٹ کے قیام تک اسرائیلی کراسنگ اور ٹرمینلز کے ذریعے باقی دنیا کے لیے کھول دیئے جائیں گے۔ دستاویز کے مطابق اگر حماس اور پی ایل او نے اس ڈیل پر دستخط سے انکار کیا تو ان کو سزا دی جائے گی اور یہ سزا امریکہ نیز دیگر سرمایہ کاروں کی جانب سے فنڈز کی معطلی کی صورت میں ہوگی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے پہلے ہی اقوام متحدہ کے ذریعے فلسطین کو دیئے جانے والے تمام فنڈز کو معطل کر رکھا ہے۔ اگر پی ایل او اس معاہدے کو مانتی ہے اور حماس نیز اسلامی جہاد اسے قبول نہیں کرتا تو پھر ان دونوں جماعتوں کے خلاف امریکی سرپرستی میں جنگ شروع کی جائے گی۔ اگر اسرائیل اس معاہدے پر دستخط سے انکار کرتا ہے تو امریکہ اسرائیل کے لیے اپنی امداد کو بند کر دے گا۔
میرے خیال میں ڈیل آف سنچری کا یہ منصوبہ ٹرمپ یا اس کے مصاحبوں کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ شاطر صہیونی دماغ کا انتہائی سوچا سمجھا منصوبہ ہے، جس کے نفاذ کے لیے ٹرمپ کے کندھے کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ اسرائیلی ریاست کی تکمیل کا اگلا مرحلہ ہے۔ اس ڈیل کے سامنے آنے والے نکات کو اب تک تو تمام فلسطینی گروہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور اسے سیاسی خودکشی کے مترادف قرار دیا ہے، تاہم مجھے یقین ہے کہ صہیونی چالبازان مخالفتوں سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے بھرپور منصوبہ بندی کر رکھی ہوگی۔ وہ صیہونی جنہوں نے عرب ریاستوں کو ان کے اصولی موقف سے پیچھے دکھیل کر اپنی صفوں میں شامل کر لیا ہے، ان کے لیے چند مزید عرب لیڈروں کو خریدنا کوئی بڑا چیلنج نہیں ہونا چاہیئے۔ ڈیل میں شامل ممالک کی تعداد سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سیاسی، معاشی، عسکری شعبہ جات میں کام کیا گیا ہے۔
ابتداء میں فلسطینیوں کو مراعات اور دھمکیوں کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جیسا کہ دستاویز کے مندرجات سے ظاہر ہے کہ حماس اور دیگر جنگجو جو اپنے ہتھیار مصر کے حوالے کریں گے، کو تنخواہیں ملتی رہیں گی۔ ائیر پورٹ، بندرگاہ، فیکٹریاں، زرعی سیکٹر، بارڈر کراسنگ کا کھلنا، مختلف معاشی منصوبے، سرمایہ کاری، قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی، فنڈز کی فراہمی، نئی فلسطینی حکومت کا جھانسہ اس کے علاوہ ہیں۔ دھمکی یہ کہ اگر قبول نہیں کرتے ہو تو سزا کے طور پر فلسطین کو ملنے والے تمام فنڈز ختم، فلسطینی قائدین کی ٹارگٹ کلنگ، ان پر سودے کے اراکین کی مدد سے حملے۔ یہ وہ وقت ہے جب فلسطینیوں کے لیے اپنوں اور غیروں میں کوئی ہمدرد و یاور نہیں رہ گیا۔ فلسطینی جن عربوں پر اپنی معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے انحصار کر رہے تھے، اس سودے کے نتیجے میں یہ امید بھی ختم ہو جائے گی۔ فلسطینی مقاومت کو جھکنے یا اپنی آزادی کے لیے کٹ مرنے میں سے کسی ایک راہ کا انتخاب کرنا ہوگا۔ فلسطینی قیادت کے لیے دونوں راہیں آسان نہیں ہیں۔ ان حالات میں تو اور زیادہ مشکل ہے کہ جب ان کے اپنے ہی غیروں کے ساتھ مل کر انہیں خاموشی کی ترغیب دینے لگ جائیں۔
میری نظر میں ڈیل آف سینچری وہ واحد دستاویز نہیں ہے، جو منظر عام پر آنی ہے بلکہ یہ اصل خفیہ ڈیل آف سینچری کا وہ حصہ ہے، جسے منظر عام پر لایا جانا ہے۔ حقیقی ڈیل آف سینچری اس خطے میں ایک ریاست یعنی اسرائیل کا قیام نیز قضیہ فلسطین کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہے۔ پہلے مرحلے میں اتحادیوں کے تعاون سے اس ڈیل کے زیادہ سے زیادہ اہداف کو حاصل کیا جائے گا اور پھر مرحلہ وار ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اس خطے میں ایک ریاست کو وجود بخشا جائے گا۔ نیا فلسطین بھلا کیا فلسطین ہے، جسے نہ اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، نہ ہی اسے اپنی معیشت میں خود مختاری ہے۔ پس ان سیاسی چالوں کا کوئی سیاسی حل یا جواب نہیں ہے بلکہ اس کا واحد حل بزور شمشیر اپنا حق حاصل کرنا ہے۔ فلسطینی اپنے جذبہ آزادی کے باوجود آہستہ آہستہ یہ طاقت کھو دیں گے، عالم عرب میں سے اسرائیل یا امریکیوں کو بغاوت کی کوئی توقع نہیں۔ خطرہ ہے تو عجم سے، گروہ مقاومت سے، جس کے خلاف امریکا گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ مگر اسے نہیں معلوم کہ جب حکم خداوندی نافذ ہوتا ہے تو ابرہہ اپنی پوری طاقت و قوت کے باوجود ایک قدم اٹھانے سے بھی قاصر ہو جاتا ہے۔