رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتہ سعودی عرب کے امریکہ نواز بادشاہ شاہ سلمان نے ایران پر امریکی دباؤ کو مزید مدد فراہم کرنے کے سلسلے میں تین اجلاس طلب کئے، خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔
اس کے بعد عرب لیگ کا اجلاس منعقد ہوا ، جبکہ تیسرے اجلاس ميں اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نے شرکت کی۔
سعودی عرب نے عرب لیگ کے اجلاس میں ایران کے خلاف ایک اعلامیہ صادر کیا جس کی شام اور عراق نے بھر پور مخالفت کی۔ عراق کے صدر برہم صالح نے واضح طور پر کہا کہ ایران عراق کا ہمسایہ ، برادر اور اہم اسلامی ملک ہے عراق اور ایران کے باہمی تعلقات بڑے اہم ہیں ۔
ایران نے ہمیشہ مشکلات شرائط میں عراقی عوام اور عراقی حکومت کی بھر پور مدد کی ہے ۔ عرب اعلامیہ میں ایران کے خلاف عائد کئے گئے تمام الزامات بے بنیاد اور غلط ہیں۔
عراق کے صدر برہم صالح نے سعودی عرب کو واضح پیغام بھی دیدیا کہ عراق ایران کے خلاف سعودی عرب کی کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنےگا۔
عراقی صدر نے عرب ممالک کے اعلامیہ پر دستخط بھی نہیں کئے اور عملی طور پر واضح کردیا کہ ایران کے خلاف سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں اور عراق جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کا ساتھ ہرگز نہيں دےگا۔
عراقی صدر برہم صالح نے کہا کہ سربراہی اور عربی اجلاسوں ميں دھمکی آمیز پیغامات دینے کے بجائے امن اور صلح کا پیغام ارسال کرنا چاہیے اور سیاسی صف بندی سے دور رہنا چاہیے۔
عراقی وزیر اعظم کے اس اقدام کو عرب میڈیا میں بھی وسیع پیمانے پر پیش کیا گیا۔
بعض عرب ذرائع کا کہنا ہے کہ عراق کے وزیر اعظم نے سعودی عرب کی ایران کے خلاف تمام سازشوں کو نقش بر آب کردیا ہے۔
عراقی صدر کی طرف سے عرب لیگ کے اعلامیہ پر دستخط نہ کرنے کو عراقی عوام اور عراقی حکومت میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
ادھر بی بی سی کے تجزیہ نگار نے بھی اعتراف کیا ہے کہ مکہ کے تینوں اجلاسوں میں سعودی عرب کو شکست فاش نصیب ہوئی ہے ، سعودی عرب اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود اپنے اہداف تک پہنچنے میں ناکام ہوگیا۔
اخبار القدس العربی نے بھی لکھا ہے کہ عراقی صدر برہم صالح نے مکہ اعلامیہ پر صرف دستخط ہی نہیں کئے بلکہ خطے میں جنگ کو شعلہ ور کرنے پر بھی خبردار کیا ہے۔