رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خصوصی انٹرویو کے دوران بتایا کہ جب بھی السید القائد کوئی رائے دینا چاہتے تو کہتے، میری تجویز یہ ہے۔ مثال کے طور پر وہ کسی حتمی نتیجہ تک پہنچ چکے ہوتے تھے لیکن ہم سے کہتے، آپ سب مل کر بیٹھیں، آپس میں مشورہ کریں اور پھر جو صحیح ہے اُس کا فیصلہ کر لیں۔ درحقیقت اُس حساس مرحلہ میں السید القائد حزب اللہ کے سپہ سالاروں اور قائدین کی فکری، علمی اور ذہنی پرورش کرنے کے ساتھ اِن کی ہدایت و رہبری میں اہم کردار ادا کر رہے تھے، تاکہ اس طرح ہمارے عزیز دوست بلند ترین اعتماد بنفس کے ساتھ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے، سخت ترین حالات میں فیصلے کر سکیں۔
ادارہ حفظ و نشر آثار، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مجلہ ’’مسیر‘‘ کی ٹیم نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کیساتھ طویل دورانیئے پہ مشتمل انٹرویو کا اہتمام کیا۔ اس انٹرویو کو ذرائع ابلاغ کی دنیا کا طویل ترین انٹرویو بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ انٹرویو لگاتار دو راتوں پہ محیط ہے اور اس انٹرویو کی اہمیت یوں بھی دوچند ہو جاتی ہے کہ طلسماتی شخصیت رکھنے والے سید حسن نصراللہ نے اپنی گفتگو میں کئی اہم باتوں اور رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔
مجلہ ’’مسیر‘‘ کی ٹیم کے انچارج اس انٹرویو کی تفصیل کچھ یوں بتاتے ہیں کہ تحریک مقاومت کی بلند مرتبہ اور سب سے مؤثر شخصیت کو دیکھنا، دل کی دھڑکن اور شوق دیدار کو بڑھا دیتا ہے۔ صیہونیوں کے حملوں سے بچنے کی خاطر بنائے گئے حفاظتی بند اور چیک پوسٹوں کو عبور کرنے کے بعد ملاقات کے لیے استقبال انسان کو مسرور کر دیتا ہے۔ 33 روزہ جنگ سے پہلے فلسطین کے حامی ذرائع ابلاغ کی ایک کانفرنس میں قریب سے ایک ملاقات کی تھی، لیکن اِس طرح اور اتنی تفصیل سے پہلی ملاقات تھی۔ اُس وقت وہ جوان تھے اور اِن کی داڑھی میں کوئی سفید بال نہ تھا، آج وہ اگرچہ نسبتاً بوڑھے ہو چکے تھے لیکن پھر بھی آواز میں وہی قوت اور طبیعت میں سرشاری تھی۔ اس ملاقات کی اُمید اس سال فروردین میں ہونے والی مختصر گفتگو میں پیدا ہوئی تھی کہ جب میں نے آئندہ تفصیلی ملاقات کی تجویز پیش کی تھی۔
انہوں نے میری تجویز کو سراہتے ہوئے کہا تھا ’’ہم اپنی جانیں بھی رہبر (آیت اللہ سید علی خامنہ ای) پر قربان کر دیں گے، بات چیت اہم نہیں۔ البتہ اتفاق سے میں بھی چاہتا ہوں کہ ایک تفصیلی گفتگو ہو اور میں بہت ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ جناب سید حسن نصر اللہ کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ دو راتوں پر محیط رہا۔ یہ انٹرویو ذرائع ابلاغ کی تاریخ کا سب سے طویل انٹرویو بن گیا ہے۔ اس میں ایسی توفیق حاصل ہوئی کہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے بعض موضوعات پر اپنی خاموشی کو توڑا اور گزشتہ چالیس بالخصوص آخری تین دہائیوں میں نہ کہی گئی باتوں اور بعض رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ پہلی نشست جب ختم ہوئی تو ابھی ہمارے آدھے سوال باقی تھے، گفتگو کے نامکمل رہ جانے کی بنا پر ہمارے چہروں سے افسردگی کے آثار کو سید نے بھانپ لیا۔ پھر نہ جانے کیسے دوسری نشست کی درخواست ہماری زبان پر جاری ہوئی، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سیدِ مقاومت نے بے تکلف ہو کر فوری طور پر ہماری درخواست کو قبول کر لیا، جس کی بنا پر ہمارے وجود میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سید نے بزرگواری اور تواضع کے ساتھ اپنے دیگر پروگرام کو تبدیل کر دیا تاکہ ہمارے ساتھ دوسری نشست ممکن ہو سکے اور باقی رہ جانے والے سوالات کے جوابات دیے جا سکیں۔
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان جناب حجت الاسلام و المسلمین سید حسن نصر اللہ کے ساتھ 5 گھنٹے کی گفتگو میں جن موضوعات پر بات ہوئی، ان میں حزب اللہ لبنان کا امام خمینی رحمہ اللہ علیہ اور حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ رابطہ کی نوعیت، اسلامی جمہوریہ ایران کے چالیس سالہ دور میں رونما ہونے والے اہم ترین واقعات، تحریک مقاومت کی مضبوطی اور ترقی کے اسباب، بحرانوں سے نکلنے میں رہبر معظم کی ہدایات اور اِن کی تاثیر، حزب اللہ کے مستقبل کے متعلق امام خمینی کی پیشگوئی، 33 روزہ جنگ کے نتائج سے متعلق رہبر معظم کی پیشگوئی اور سختیوں سے نمٹنے کے لیے رہبر معظم کی روحانی نصیحتیں، رہبر معظم کی بے باک فیصلے اور دسیوں دوسرے پڑھنے کے لائق مطالب ہیں، جو آپ اِس انٹرویو میں ملاحظہ کریں گے۔ اس گفتگو کے پیغام کو ایک جملہ میں ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ تحریک مقاومت کے طرز جہاد میں کم وسائل کے ساتھ اور کم وقت میں حاصل ہونے والی باافتخار کامیابی کے راز ہیں۔
سوال: جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو خطے کے حالات کیا تھے؟ ایشیاء کے مغرب میں کیا صورت حال تھی؟ خاص طور سے اس پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اسلامی انقلاب کے اثرات خطے میں اور بین الاقوامی سطح پر بہت گہرے ہوئے ہیں، لہذا اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ خطے میں طاقت کا توازن کیونکر تبدیل ہوا اور آپ نے کونسی تبدیلیوں کو محسوس کیا؟ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ خطے میں عام طور پر اور لبنان میں خاص طور پر کیا واقعات رونما ہوئے۔؟
سید حسن نصراللہ: اگر ہم ماضی میں نگاہ کریں اور واقعات کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے کچھ پہلے خطے میں ایک انتہائی اہم واقعہ پیش آتا ہے اور وہ ہے مصر کا عرب اسرائیل لڑائی سے باہر نکلنا اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر دستخط کرنا، عرب اسرائیل لڑائی میں مصر کا مرکزی کردار ہونے کی وجہ سے خطے میں مسئلہ فلسطین اور فلسطین کے مستقبل پر اس واقعہ کے انتہائی خطرناک نتائج بر آمد ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد بادی النظر میں یوں لگا کہ اب لڑائی کا اختتام اسرائیل کے حق میں ہو گا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ عرب ممالک اور فلسطینی جہادی گروہ، مصر کے بغیر بڑی طاقتوں سے لڑنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ اسی بنا پر اس واقعہ کے رونما ہونے سے عرب دنیا کے درمیان گہری دراڑ پڑ گئی تھی۔
دوسری بات یہ کہ آپ کو یاد ہو گا، اس زمانہ میں متحدہ روس ایک طرف تھا اور دوسری طرف مغربی ممالک امریکہ کی سربراہی میں اس کے مقابلے میں تھے۔ اس بنا پر ہمارے خطے میں ایک خلا پایا جاتا تھا۔ کچھ ممالک متحدہ روس یعنی مشرقی بلاک میں تھے اور کچھ ممالک مغربی بلاک یعنی امریکہ کی جانب تھے، لہذا عربی ممالک میں ہم ایک بڑے خلا کو محسوس کر رہے تھے۔ خطے کی اقوام کے لیے اس خلاء کے بہت خطرناک اثرات تھے، البتہ عرب اسرائیل جنگ کے بھی خطرناک اثرات خطے میں پائے جاتے تھے۔ اِسی طرح اُس زمانہ میں متحدہ روس اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مابین ایک سرد جنگ بھی تھی، جس کے اثرات ہمارے خطے میں دیکھ جا سکتے تھے، اِسی بنا پر خطے میں رونما ہونے والے واقعات بھی اِن اثرات سے دور نہ تھے۔ لبنان کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ لبنان بھی اِسی خطہ کا حصہ ہے، اِسی بنا پر یہ علاقہ اسرائیلی اقدامات، عرب اسرائیل جنگ اور خطہ میں موجود کسی بھی خلا سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
اُس زمانہ میں لبنان اپنے بعض داخلی مسائل میں بھی اُلجھا ہوا تھا اور داخلی جنگ اُس کے دست و گریبان تھی۔ 1978 میں یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی سے ٹھیک ایک سال پہلے، اسرائیلی دشمن نے جنوب لبنان کا ایک حصہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ پھر ایک حفاظتی باڑ ’’سرحدی باڑ‘‘ کے نام سے فلسطین اور لبنان کی سرحد پر لگا دی گئی۔ اسرائیلی دشمن اس حفاظتی باڑ سے آئے دن لبنان کی عوام، ان کے شہروں اور دیہاتوں پر حملے کرتا اور مزید کسی نہ کسی علاقہ میں قبضہ کی کوشش کرتا تھا۔ لہذا ہم اِس زمانہ میں ایک سنجیدہ اور سنگین مشکل کا سامنا کر رہے تھے، یعنی جنوب لبنان میں اسرائیلی قبضہ اور آئے دن کے حملات کو برداشت کر رہے تھے۔ اسرائیلی توپخانہ اور اس کے جنگی جہاز جنوب لبنان پر گولہ باری کرتے رہتے تھے۔ اسرائیل کی طرف سے لوگوں کو اغواء کرنے اور بم دھماکوں کا سلسلہ جاری تھا، ان وحشیانہ اقدامات کی بنا پر لوگ بے گھر ہو رہے تھے۔ یہ تمام واقعات 1977ء سے لے کر 1979ء یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی سے کچھ پہلے تک رونما ہوئے اور اِن کا سلسلہ جاری تھا۔
سوال: کیا وہ (اسرائیلی دشمن) لبنان میں فلسطینیوں کی موجودگی کو بہانہ بنا رہے تھے؟
سید حسن نصراللہ: جی ہاں، اسرائیل، فلسطینی مقاومت اور فلسطینیوں کی کارروائیوں پر معترض تھا، لیکن یہ بات یہ ایک بہانہ تھی، کیونکہ جنوب لبنان پر اسرائیل کی چڑھائی 1948ء سے شروع ہوگئی تھی، یعنی جس زمانہ میں ابھی فلسطینی مقاومت جنوب لبنان میں نہ تھی۔ مقاومت فلسطین نے 60ء کی دہائی کے آخر اور 70ء کی دہائی کے شروع میں، اردن کے واقعات اور فلسطینی گروہوں کے اردن سے لبنان منتقل ہونے کے بعد جنوب لبنان میں اپنا کام شروع کیا۔ یہ وہ حالات تھے، جن میں اسلامی انقلاب ایران میں کامیاب ہوا، انقلاب اُس زمانہ میں کامیاب ہوا، جب عرب دنیا اور جہان اسلام میں نا اُمیدی کے بادل چھائے ہوئے تھے، ہر کسی کو مستقبل کی فکر لاحق تھی۔ عرب اسرائیل جنگ سے مصر کا نکل جانا اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کرنا، فلسطینیوں اور عرب دنیا والوں کے لیے تحقیر آمیز سیاسی مرحلہ کا آغاز تھا۔ اسی طرح عرب ممالک کے حکمرانوں کی کمزوری، لوگوں میں مایوسی، غم و اندوہ، نااُمیدی اور اپنے مستقبل کی فکر مندی کا باعث تھی لہذا ان حالات و واقعات میں اسلامی انقلاب ایران کی کامیابی خطے کی اقوام خاص طور پر فلسطینی اور لبنانی قوم کے اندر اُمید زندہ کرنے کا باعث بنی۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی، اُن اقوام میں بھی امید زندہ کرنے کا باعث بنی، جو اسرائیل کے وجود سے بہت تکلیف میں تھے کیونکہ ابتدا ہی سے امام خمینی کا موقف، صیہونی سازش، فلسطین کی آزادی اور فلسطینی جہادی گروہوں کی حمایت کے بارے میں بالکل واضح تھا۔ امام خمینی فلسطینی قوم کی حمایت، اُن کی سرزمین کے ایک ایک انچ کی آزادی اور خطے سے غاصب اسرائیلی حکومت کے خاتمہ پر تاکید کیا کرتے تھے۔ اس بنا پر ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی مستقبل سے متعلق اُمیدوں کو زندہ کرنے کا باعث بنی، مقاومت کے حامیوں اور خطے میں موجود مقاومتی تحریکوں کے حوصلوں میں اضافہ کا سبب بنی۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی خطے میں موازنہ قدرت کو باقی رکھنے کی وجہ بن گئی۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ سے مصر باہر نکلا اور اسلامی جمہوریہ ایران اس جنگ میں اُترا۔ اس بنا پر عرب اسرائیل جنگ میں موازنہ قدرت ایک مرتبہ پھر برقرار ہو گیا۔ لہذا خطے میں مقاومتی تحریک ایک نئے تاریخی مرحلہ میں داخل ہو گئی۔ یہ واقعہ عرب دنیا اور جہان اسلام میں شیعہ و سنی کے اندر اسلامی و جہادی تحریک کا نقطہ آغاز تھا۔
امام خمینی نے کئی ایک اہم مسائل پر اقوام عالم کو رہنما اصول دیے، جیسا کہ مسئلہ فلسطین، وحدت مسلمین، جہاد و دفاع، مقاومت، امریکہ و استکبار سے مقابلہ، ثاابت قدمی و استحکام، اعتماد بہ نفس، اقوام عالم کا پروردگار عالم پر توکل ہونا، عالمی استکبار کے مقابلے میں اپنی طاقت پر بھروسہ اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنا، اِن تمام مسائل میں بے شک امام خمینی کے بیانات نے بہت ہمت دی، حوصلہ بڑھایا، شعور بیدار کیا، اُس زمانے میں خطے اور عالمی سطح پر ان بیانات کے بہت مفید اثرات ہوئے۔ علاوہ از این اسلامی انقلاب کے توسط سے جو عمومی ماحول بنا اور امام خمینی ؒ نے خطے کی عوام کے اندر ایک نئی روح پھونک دی اور مقاومت کو زندہ کر دیا۔
سوال: حضرت امام خمینی اور لبنانی تحریک مقاومت کے حوالے سے امام کے موقف پر، کیا آپ کو کوئی خاص بات یاد ہے۔؟
سید حسن نصراللہ: جی ہاں، اگر اس حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں، تو 1982ء میں ایران کے خرم شہر کی آزادی کا ذکر کریں۔ ایران عراق جنگ یا صدام کی طرف سے ایران کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ کے بارے میں اسرائیلی بہت فکر مند رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خرم شہر کی آزادی کے بعد اسرائیلیوں نے لبنان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ البتہ اس کارروائی کے پیچھے کچھ دوسرے عوامل بھی تھے، لیکن محاذ جنگ پر ایران کو حاصل ہونے والی کامیابیوں اور لبنان میں اسرائیلی تجاوز کا آپس میں گہرا تعلق تھا۔ یہ سلسلہ تھا کہ اسرائیل نے جنوب لبنان، البقاع کا علاقہ، جبل لبنان اور بیروت کے نواحی علاقوں پر چڑھائی کی۔ اُس وقت میں کچھ علماء اور مجاہدین نے اسرائیلی حملوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسلامی مقاومت شروع کرنے اور جہادی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا۔
اُس زمانہ میں اسرائیل سارے لبنان میں داخل نہیں ہوا تھا بلکہ آدھے لبنان یعنی اس سرزمین کے تقریباً 40 فیصد حصہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ ایک لاکھ اسرائیلی فوجی، کئی دوسرے ممالک جیسے امریکہ، فرانس، برطانیہ اور اٹلی کی افواج کو اپنے ہمراہ لے کر خطے میں صلح کے بہانے لبنان میں داخل ہو چکے تھے۔ علاوہ از این خود لبنانی عوام کے اپنے کچھ نیم فوجی دستے بھی اسرائیل سے رابطہ میں تھے اور اُن کی مدد کر رہے تھے۔ یہ بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اُس زمانہ میں صورت حال انتہائی ابتر تھی۔ اس کے بعد بعض علما، مومنین اور مجاہد برادران نے مقاومت اسلامی کے نام سے ایک نیا جہادی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا، کچھ ہی عرصہ بعد اس کا نام حزب اللہ رکھا گیا۔ اس تنظیم کا آغاز اور اسرائیلی غاصبانہ قبضہ کے خلاف مقابلہ کرنے کی خاطر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے گروہوں کو شام و لبنان بھیجنے کا فیصلہ ایک ہی زمانہ میں ہوا۔
شروع میں ارادہ یہ تھا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، شامی افواج اور لبنانی و فلسطینی جہادی تنظیموں کے ساتھ مل کر اسرائیل سے جنگ کرے گی، لیکن تھوڑے ہی وقت میں اسرائیل کی جانب سے ہونے والے حملوں میں کمی آ گئی۔ اس بنا پر صرف عسکری محاذ پر لڑائی کافی نہ تھی، بلکہ اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت تھی کہ عوامی حمایت حاصل کی جائے اور عوام کو دفاع کے لیے آمادہ کیا جائے۔ یہ وقت تھا کہ جب امام خمینی نے شام و لبنان میں اسرائیل کے ساتھ مقابلہ کرنے والے سپاہ پاسداران کے گروہوں کو مامور کیا کہ وہ لبنانی نوجوانوں کو عسکری تربیت دیں تاکہ آئندہ وہ خود قابض قوتوں کے ساتھ مقابلہ کر سکیں اور دفاعی کارروائیاں انجام دے سکیں۔ بنا بر این شام، البقاع لبنان، بعلبک ، ھرمل اور حینتا میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ذمہ داری تبدیل ہو گئی اور اُن کے مراکز لبنانی جوانوں کی عسکری تربیت گاہوں میں بدل گے۔ وہ لبنانی جوانوں کو جنگی مشقیں کراتے تھے اور اُن کی لاجسٹک مدد کیا کرتے تھے۔ اُس زمانہ میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی صرف موجودگی سے لبنانی جوانوں اور جہادی گروہوں میں اسرائیل کے ساتھ لڑنے کا جذبہ بڑھ رہا تھا۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ طے کیا گیا تھا کہ ایک بڑی مقاومتی تحریک شروع کی جائے۔ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے، مقاومت کے حامی برادران میں سے نو افراد منجملہ شہید سید عباس موسوی رحمہ اللہ کو منتخب کیا گیا تاکہ وہ اس ہدف کو آگے بڑھائیں۔ طبعی طور پر میں اِن نو افراد میں نہ تھا کیونکہ اُس زمانہ میں میری عمر کم تھی اور میں 22، 23 سال کا تھا۔ یہ نو افراد ایران گئے اور انہوں نے وہاں اسلامی جمہوریہ ایران کے ذمہ داران اور اعلیٰ حکام نیز امام خمینی سے ملاقات کی۔ انہوں نے امام خمینی سے ملاقات میں خطے اور لبنان کی تازہ صورتحال بیان کی اور بڑی سطح پر مقاومتی تحریک شروع کرنے کی اپنی تجویز امام کے سامنے رکھی۔ انہوں نے امام خمینی رضوان اللہ سے کہا: ہم آپ کی قیادت، سرپرستی اور رہبری پر ایمان رکھتے ہیں، آپ فرمائیں ہمارا فریضہ کیا ہے؟ حضرت امام خمینی رضوان اللہ نے جواب میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا فریضہ ہے کہ آپ دشمن کے سامنے پوری طاقت کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کریں، چاہے آپ کے پاس وسائل اور افرادی قوت کی کمی ہو۔ یہ وہ دور تھا جب حزب اللہ کے اراکین کی تعداد بہت کم تھی۔
امام خمنی رضوان اللہ نے فرمایا کہ صفر سے شروع کرو اور تم لوگوں کا توکل خدا پر ہونا چاہیے، نیز دنیا میں کسی کے انتظار میں نہ رہیں کہ وہ آپ کی مدد کرے گا، اپنے آپ پر بھروسہ کریں اور یاد رکھیں پروردگار آپ کی مدد کرے گا۔ میں فتح کو آپ کے ماتھے پر دیکھ رہا ہوں۔ اُس وقت میں یہ پیش گوئی ایک عجیب بات تھی۔ امام خمینی نے اس فیصلہ کو نیک فال قرار دیا لہذا امام کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں ہمارے برادران پہنچے اور مقاومت اسلامی لبنان کا سنگ بنیاد ’’ حزب اللہ ‘‘ کے نام سے رکھا گیا۔ اس وقت ہمارے دوستوں نے امام سے کہا کہ ہم آپ کی سرپرستی، قیادت اور رہبری پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن آپ کے کام بہرحال بہت زیادہ ہیں اور آپ کی عمر بھی زیادہ ہو چکی ہے اور اسی بنا پر ہم مسلسل تمامتر مسائل اور معاملات میں آپ کے مزاحم نہیں ہونا چاہتے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنے کسی نائب کا تعارف کروا دیں تاکہ اپنے ضروری معاملات میں ہم اِن کی طرف رجوع کریں۔ پھر اس کے بعد انہوں نے جناب خامنہ ای جوکہ اُس دور میں ایران کے صدر تھے، کا اپنے نائب کے طور پر ہمیں تعارف کروایا۔ امام خمینی رضوان اللہ نے فرمایا کہ جناب خامنہ ای میرے نمائندہ ہیں۔ اسی بنیاد پر پہلے دن سے ہی حزب اللہ لبنان کا حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ گہرا رابطہ شروع ہو گیا۔ ہم مسلسل مختلف ادوار میں اِن سے ساتھ رابطے میں رہے اور ہمیشہ اِن کی خدمت میں آتے رہے۔ تازہ بہ تازہ حالات کی رپورٹ اِن تک پہنچاتے رہے ہیں اور ہمیشہ انہوں نے مقاومت کی حمایت اور حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔
امام خمینی کے حوالے سے میری اِن کے ساتھ یادوں میں سے ایک وہ وقت تھا، جب حزب اللہ کے کچھ شہادت طلب افراد کا وصیت نامہ اِن کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ لبنان میں پہلے فدائی حملے کا تجربہ کیا گیا، ہمارے بعض جوانوں نے یہ کارروائی انجام دی۔ حزب اللہ میں ہمارے کچھ برادران نے شہادت طلب افراد کے وصیت ناموں پر مشتمل ویڈیو جاری کی، جنہوں نے لبنان میں عظیم فدائی حملہ کیا اور غاصبوں کے وجود پر لرزہ طاری کر دیا، ذرائع ابلاغ میں اس ویڈیو کو جاری کرنے سے پہلے حضرت امام کے سامنے چلایا گیا۔ امام نے اسے دیکھا اور اس کے بارے میں گفتگو کی۔ وصیت نامے بہت خوبصورت، عشق و جنون اور روحانیت سے بھرپور تھے۔ امام خمینی ؒ نے ویڈیو دیکھنے کے بعد فرمایا یہ جوان ہیں، ( کیونکہ وہ سب جوان تھے۔) پھر فرمایا: یہ حقیقی روحانی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام خمینی ؒ اِن وصیت ناموں سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ امام ؒ نے اپنی پُر برکت زندگی کے آخری لمحات تک لبنان میں مقاومت اور حزب اللہ پر توجہ رکھی اور اِن کی حمایت جاری رکھی۔ مجھے یاد ہے کہ امام ؒ کی وفات سے تقریباً ایک دو مہینے پہلے یعنی جب وہ بستر بیماری پر تھے، وہ ملکی حکام سے بھی بہت کم ملتے تھے اور غیر ملکی افراد سے تو بالکل نہیں۔ میں شوریٰ حزب اللہ کے رکن اور حزب اللہ کے اجرائی امور کے صدر کی حیثیت سے ایران آیا۔ یہاں السید القائد خامنہ ای، مرحوم جناب آیت اللہ رفسنجانی اور بعض ایرانی اعلیٰ حکام سے ملاقات ہوئی۔
میں نے کہا کہ میں امام سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ امام بستر بیماری پر ہیں اور کسی سے ملاقات نہیں کرتے۔ میں نے کہا میں اپنی کوشش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر میں دفتر امام گیا اور ملاقات کی درخواست کی۔ اُس زمانہ میں ہمارے ایک دوست جناب شیخ رحیمیان بیت امام میں ہوا کرتے تھے، وہ لبنانیوں کو خاص اہمیت دیا کرتے تھے، انہوں نے سید احمد خمینی سے بات کی۔ دوسرے دن مجھ سے کہا گیا کہ ملاقات کے لیے تیار ہو جائیں۔ میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ میں امام ؒ سے ملاقات کے لیے پہنچا، وہاں کوئی نہ تھا۔ یعنی حتیٰ سید احمد بھی نہ تھے۔ حکام میں سے کوئی نہ تھا، وزارت خارجہ اور سپاہ پاسداران کے وہ لوگ جو عام طور پر ملاقاتوں میں موجود رہا کرتے تھے، وہ بھی وہاں نہ تھے۔ جناب رحیمیان بھی امام کے کمرے تک میرے ساتھ آئے اور پھر کمرے سے باہر چلے گئے، میں اکیلا رہ گیا۔ ہیبت امام کی وجہ سے میرے وجود پر لرزہ طاری تھا۔ امام ایک بڑی کرسی پر تشریف فرما تھے۔ میں زمین پر بیٹھ گیا۔ ہیبت امام کی وجہ سے میرے وجود پر جو لرزہ طاری تھا، میری آواز نہیں نکل رہی تھی۔ امام نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : قریب آؤ، میں اور زیادہ اِن کے قریب ہو گیا۔ پھر میں نے ہمت کر کے بات شروع کی اور میرے پاس جو خط تھا، وہ امام کی خدمت میں پیش کیا۔ میں نے اُس وقت لبنان کی تازہ صورتحال اِن گوش گزار کی۔ امام مختلف مسائل کا جواب دیا اور پھر تبسم کرتے ہوئے فرمایا: میرے تمام بھائیوں سے کہو پریشان نہ ہوں، اسلامی جمہوریہ ایران کے اندر میں اور میرے ساتھی سب آپ کے ساتھ ہیں اور ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گے۔ یہ امام ؒ کے ساتھ میری آخری ملاقات تھی۔
سوال: آپ نے فرمایا کہ انتہائی مشکل حالات میں حزب اللہ کی تشکیل ہوئی اور اس نے اپنا کام شروع کیا۔ آپ نے بتایا کہ اس وقت ایران خود ایک جنگ میں گھرا ہوا تھا، لبنان میں صیہونی حکومت گاہے بہ گاہے عوام پر حملہ آور ہوتی اور قتل و غارت کرتی، اِن دشوار حالات میں حزب اللہ نے کام شروع کیا۔ آپ نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ حضرت امام نے آپ کو حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی طرف رجوع کرنے کا کہا تاکہ آپ اِن سے رابطہ میں رہیں، میں آپ سے چاہوں گا کہ امام کی رحلت کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے جو آپ کی رہنمائی فرمائی، اِن میں سے بعض اہم امور بیان کریں نیز انہوں نے اپنے دور صدارت میں مشکلات سے نمٹنے کے لیے جو راہ حل پیش کیے اِن سے بھی ہمیں مطلع کریں۔
سید حسن نصراللہ: ابتدا ہی سے ہمارا رابطہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ السید علی خامنہ ای سے برقرار ہوگیا تھا۔ میں انہیں اپنی ادبیات میں ’’السید القائد‘‘ کہتا ہوں۔ حزب اللہ میں ایک شوریٰ ہوتی ہے کہ جس کے اراکین کی تعداد مختلف ادوار میں کم زیادہ ہوتی رہی ہے، یہ لوگ السید القائد کی صدارت کے دور میں مسلسل اِن کی خدمت میں آیا کرتے تھے۔ اس دور کے بارے میں آئندہ جو بتاؤں گا، اس کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ اِن کی صدارت میں اور امام ؒ کی وفات سے پہلے سات سال تک اِن سے رابطہ رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ السید القائد لبنانی وفود کو خاص اہمیت دیا کرتے تھے اور اپنا اچھا وقت اِن کے لیے مخصوص کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اِن کے ساتھ ہماری نشستیں دو تین گھنٹے اور بعض اوقات چار گھنٹے تک طویل ہو جایا کرتی تھیں۔ وہ ہماری باتوں کو بہت غور سے سنا کرتے تھے۔ ہمارے ساتھی بھی بہت تفصیل کے ساتھ انہیں مسائل سے آگاہ کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اُس زمانہ میں سب لوگوں کی ایک رائے نہ ہوا کرتی تھی، ہمارے دوستوں کے مختلف نکتہ ہائے نظر ہوا کرتے تھے۔ السید القائد تمام نکتہ ہائے نظر، تمام آراء اور ہر طرح کی دلیل کو توجہ سے سنتے تھے۔ ایک اہم بات یہ تھی کہ السید القائد اور ہمارے درمیان زبان اور عربی بول چال میں کوئی مشکل نہ تھی، کیونکہ انہیں عربی زبان پر عبور تھا اور وہ مکمل طور پر عربی زبان و لہجے میں بات کرسکتے تھے۔ وہ بہت خوبصورت عربی میں بات کرتے تھے۔
البتہ وہ ترجیح دیتے تھے کہ ہمارے درمیان ایک عربی مترجم بھی موجود رہے۔ عام طور پر السید القائد فارسی میں بات کرتے، لیکن جب لبنانی نمائندگان عربی میں بات کرتے تو انہیں ترجمہ کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ عربی زبان پر عبور ہونے کی وجہ سے وہ ہماری مشکلات اور ہمارے لبنانی بھائیوں کے نکتہ ہائے نظر کو اچھی طرح سمجھ پاتے تھے۔ قابل ذکر اور اہم بات یہ ہے کہ السید القائد کو امام خمینی ؒ کی طرف سے تمام تر اختیارات حاصل ہونے کے باوجود، اُن کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ وہ ہمارے لیے راستہ دکھانے والے رہنماء کی حیثیت میں رہیں اور ہماری مدد کیا کرتے، تاکہ تمامتر فیصلے ہم خود کریں۔ مجھے یاد ہے کہ تمام نشستوں میں، اُس زمانہ میں اور اس کے بعد جب وہ رہبر منتخب ہوگئے تھے، جب بھی السید القائد کوئی رائے دینا چاہتے تو کہتے، میری تجویز یہ ہے۔ مثال کے طور پر وہ کسی حتمی نتیجہ تک پہنچ چکے ہوتے تھے، لیکن ہم سے کہتے، آپ سب مل کر بیٹھیں، آپس میں مشورہ کریں اور پھر جو صحیح ہے اُس کا فیصلہ کر لیں۔ درحقیقت اُس حساس مرحلہ میں السید القائد حزب اللہ کے سپہ سالاروں اور قائدین کی فکری، علمی اور ذہنی پرورش کرنے کے ساتھ اِن کی ہدایت و رہبری میں اہم کردار ادا کر رہے تھے، تاکہ اس طرح ہمارے عزیز دوست بلند ترین اعتماد بنفس کے ساتھ اپنی صلاحیتوں بھروسہ کرتے ہوئے، سخت ترین حالات میں فیصلے کر سکیں۔ وہ اپنی رائے سے آگاہ کیا کرتے تھے لیکن یہ ضرب المثل جو آپ کہتے ہیں، اپنی مملکت کی صلاح کو خسروان جانتا ہے، کو دہرایا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے، آپ لبنان والے ہیں اور اپنے معاملات کو بہتر جانتے ہیں۔ ہم بعض نکتہ نظر بیان کریں گے اور اِن سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن حتمی فیصلہ آپ نے ہی کرنا ہے۔ اس بات کے منتظر نہ رہیں کہ کوئی دوسرا آپ کی جگہ فیصلہ کرے گا۔ اس بنا پر حزب اللہ کی تربیت، ہدایت اور ترقی کے مراحل میں السید القائد کا بہت بنیادی، اہم، سنجیدہ اور عظیم کردار ہے۔
ہمارے دوست سال میں دو سے تین مرتبہ ایران جایا کرتے تھے، یعنی تقریباً ہر چھ مہینے بعد ایک سفر ایران ہوا کرتا تھا تاکہ ایران کے حالات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں ایرانی حکام کے نکتہ ہائے نظر سے آگاہی ہوسکے، کیونکہ اُس زمانہ میں خطے کی صورتحال میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ واضح ہے کہ اُس وقت جنگ بھی جاری تھی۔ ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ اور خطے میں اس کی باز تاب سے آگاہی ضروری تھی، لہذا ہمارے دوستوں کو ایران کے ساتھ مسلسل مشاورت اور معلومات کے تبادلہ نیز بعض حوالوں سے حمایت کی ضرورت تھی۔ اُس زمانہ میں جب کبھی ہمارے دوستوں کو کوئی اہم اور فوری مسئلہ درپیش ہوتا تو مجھے ایران روانہ کرتے تھے، کیونکہ میں سب سے چھوٹا تھا اور حفاظتی مسائل نہ تھے۔ صرف میں ہوا کرتا تھا اور میں نے ایک بیگ اٹھایا ہوا ہوتا تھا، میں چونکہ کوئی اہم و مشہور شخصیت نہ تھا، اس لیے میرا ایران جانا مشکل نہ تھا اور کسی قسم کا حفاظتی خطرہ بھی نہ تھا۔ ایک اور بات یہ کہ حزب اللہ میں جو برادران تھے، اِن میں فارسی زبان سے میں بہتر آشنائی رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی وہ ترجیح دیتے کہ میں ایران جاؤں لہذا ابتدا سے ہی میرے اور ایرانی بھائیوں کے درمیان مہر و محبت کا تعلق قائم تھا۔
ہمارے برادران مجھ سے کہتے تھے کہ تم ایرانیوں کو پسند کرتے ہو اور ایرانی تم سے محبت کرتے ہیں، لہذا تم خود ہی ایران جاؤ۔ میں اپنے لبنانی بھائیوں کی جانب سے السید القائد کی خدمت میں جایا کرتا تھا، ایک دو گھنٹے اِن کے حضور میں زانوے ادب طے کرتا۔ حتیٰ جب گفتگو ختم ہو جایا کرتی اور رخصت کی اجازت چاہتا تو وہ مجھ سے کہتے آپ کو جلدی کیوں ہے؟ ابھی تشریف رکھیں اور اگر کوئی بات باقی ہے تو بیان کریں۔ وہ دور حزب اللہ کے لیے بہت اہم تھا کیونکہ حزب اللہ بہت ہی بنیادی مسائل، نظریات اور اہم اہداف و مقاصد پر متوجہ ہوچکی تھی۔ ہم اور دیگر برادران مختلف نظریات کے حامل تھے، لیکن آخر کار ہم ایک عبارت پر متفق ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج حزب اللہ میں ایک ہی نظریہ ہے۔ مختلف پیش آنے والے واقعات اور اِن میں حاصل ہونے والے تجربات نیز حضرت امام و السید القائد کی رہنمائی و رہبری، خواہ امام ؒ کی حیات میں یا اُن کی وفات کے بعد، نے ہمارے نظریات کو متحد اور یکجہت کر دیا۔
سوال: سن 1989 کہ جب حضرت امام خمینی رضوان اللہ رحمت خدا میں چلے گئے، ہماری عوام اور اسلامی انقلاب سے عقیدت رکھنے والے سب لوگ عزادار تھے، وہ لمحات ہمارے لیے اور اسلامی انقلاب سے دلی وابستگی رکھنے والوں کے لیے انتہائی حساس تھے۔ پھر جب حضرت خامنہ ای، امام ؒ کے جانشین منتخب ہوئے، آپ مختصر طور پر فرمائیں کہ اِن حالات میں اور اس دور میں آپ (حزب اللہ) کس کیفیت میں تھے؟ نیز امام ؒ کی رحلت کے بعد خطے میں اور بین الاقوامی سطح پر آپ کو جن حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑا، اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں، یقیناً وہ دور بہت حساس تھا کیونکہ اُس وقت متحدہ روس ٹوٹ رہا تھا اور امریکہ کی طرف رجحان بڑھ رہا تھا اور سرد جنگ کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ اُسی دور میں ہم نے دیکھا کہ صیہونی حکومت کی جانب سے صلح کی باتیں ہونے لگیں اور اسلامی انقلاب کے لیے کچھ خاص حالات پیدا ہو گئے تھے۔ دوسری جانب امریکہ نے بھی ضرور رحلت امام کے بعد کی منصوبہ بندی کر رکھی ہو گی، ہم چاہتے ہیں کہ اُس صورتحال کے بارے میں بات کریں اور اُن حالات کو ہمارے لیے بیان کریں اور یہ کہ خطے و بین الاقوامی سطح پر جو تبدیلیاں ہوئیں حضرت آقا نے کس طرح اِن کے ساتھ مقابلہ کیا؟
سید حسن نصراللہ: جیسا کہ آپ جانتے ہیں امام ؒ کی حیات میں اراکین حزب اللہ لبنان اور مقاومت کے حمایتیوں کے اِن کے ساتھ بہت قریبی، فکری، علمی و ثقافتی روابط تھے۔ اس کے باوجود اراکین حزب اللہ حضرت امام کے ساتھ جذباتی و احساساتی وابستگی رکھتے تھے۔ وہ حقیقت میں بہت سے ایرانیوں کی طرح، جو محاذ جنگ پر لڑ رہے تھے، امام ؒ کے عاشق تھے۔ حزب اللہ کے اراکین انہیں ایک قائد، رہبر، ہادی، واعظ، مرجع تقلید اور ایک باپ کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ میں نے ابھی تک لبنانیوں کو نہیں دیکھا کہ وہ کسی شخصیت کے اتنے عاشق اور چاہنے والے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ رحلت امام کے دن لبنانیوں پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹے تھے اور اِن کا غم کسی بھی طرح ایرانیوں سے کم نہ تھا۔ اس بنا پر پہلی بات یہ تھی کہ لبنانیوں کی حضرت امام ؒ سے جذباتی وابستگی تھی اور دوسری یہ کہ اُس وقت میں بہت بڑی پریشانی پائی جا رہی تھی، اور وہ یہ کہ مغربی میڈیا مسلسل امام خمینی ؒ کے بعد والے حالات پر تبصرہ کر رہا تھا اور اُن کا دعویٰ تھا کہ اصل مشکل یہی مرد تھا اور اس کے بعد ایران ٹوٹ جائے گا نیز ایران میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ بہت جلد ایران کے اندر جنگ اور لڑائی جھگڑے ہونگے اور اِن کے پاس قیادت کے لیے کوئی جانشین موجود نہیں۔
اِدھر امام خمینی ؒ کی پُر برکت زندگی کے آخری ایام میں بہت سخت قسم کی نفسیاتی جنگ چل رہی تھی، خاص طور سے جناب مرحوم منتظری کو معزول کرنے اور بعض دوسرے مسائل کے حوالے سے ملکی سیاسی فضا سازگار نہ تھی۔ اس بنا پر بعض پریشانیوں کا سامنا تھا ۔ اُس زمانہ میں ہم سے کہا جا رہا تھا، کہ آپ جس اسلامی جمہوریہ ایران پر تکیہ لگائے ہوئے ہیں اور اس پر ایمان و اعتماد رکھتے ہیں، رحلت امام کے بعد تباہی اور سقوط کے راستے پر ہے لہذا دوسرا اہم مسئلہ دشمن کی طرف سے شروع کی گئی نفسیاتی جنگ تھی۔ تیسرا بڑا مسئلہ رحلت امام ؒ کے بعد کی صورتحال سے ہماری عدم آگاہی تھی، ہمیں معلوم نہ تھا کہ اِن کے بعد معاملات کیا رخ اختیار کریں گے اور کیا ہو گا؟ اسی وجہ سے ہم پریشان تھے۔ جب ہم رحلت امام ؒ کے بعد ٹیلی وژن کے ذریعہ واقعات کا جائزہ لے رہے تھے، تو ایران میں ملکی سطح پر امن عامہ کی بہترین صورتحال اور امام ؒ کے تشیع جنازہ میں ایرانی قوم کی شرکت کو دیکھ کر ہمارا ذہن مطمئن اور دل پُر سکون ہو گیا۔
ہم مطمئن ہوگئے کہ ایران نہ خانہ جنگی اور نہ ٹوٹنے و سقوط کی طرف بڑھ رہا ہے اور بالآخر ایرانیوں نے نہایت عقل مندی کے ساتھ ایک مناسب رہبر کا انتخاب کر لیا۔ ہم تمام ایرانیوں کی مانند اِس حوالے سے مجلس خبرگان کے فیصلہ کا انتظار کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجلس خبرگان کی جانب سے السید القائد کا اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے رہبر منتخب کیے جانا، لبنانیوں کے لیے ناقابل یقین تھا کیونکہ ہم ایرانی شخصیات کو اچھی طرح نہیں جانتے تھے، ہم نہیں جانتے تھے کہ کیا رہبری کے لیے السید القائد سے زیادہ کوئی فرد عالم تر اور مناسب تر ہے یا نہیں؟ ہم صرف انہی حکام کو جانتے تھے، جن سے ہم رابطہ میں رہتے تھے۔ اس ذمہ داری کے لیے السید القائد کا انتخاب، ہمیں غافل گیر کر دینے والا، غیر معمولی اور باعث مسرت و خوشحالی تھا، جس نے ہمارے اذہان کو مطمئن کر دیا۔ بہرحال ہم اس مرحلہ کو پار کر آئے، ہم نے اپنے رابطے کو نئے حالات و واقعات میں بحال کیا اور یہ رابطہ گہرا ہوتا چلا گیا۔
سوال: کیا حزب اللہ اور آیت اللہ خامنہ ای کے مابین رابطے کے لیے کسی خاص شخص کو مقرر کیا گیا تھا۔؟
سید حسن نصراللہ: کچھ عرصہ بعد ہم ایران گئے اور رحلت امام ؒ پر تعزیت پیش کی اور پھر السید القائد کی خدمت میں پہنچے۔ وہ پہلے کی طرح صدارتی دفتر میں تھے اور وہ وہاں پر لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ ہم نے وہاں سب کی موجودگی میں اِن کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ہمارے ساتھیوں نے انہیں مخاطب کر کے کہا کہ آپ امام ؒ کی زندگی میں امور لبنان، فلسطین اور خطے میں اِن کے نمائندہ تھے نیز ایران کے صدر بھی تھے۔ اُس دور میں اِن امور کے لیے آپ وقت نکالتے تھے، لیکن اب آپ اسلامی جمہوریہ ایران اور تمام مسلمانوں کے رہبر بن گئے ہیں، اِسی بنا پر ممکن ہے کہ آپ پہلے کی طرح ہمارے لیے وقت نہ نکال سکیں، لہذا ہم آپ سے چاہتے ہیں کہ اپنی طرف سے کوئی نمائندہ مقرر فرما دیں تاکہ ہم مسلسل آپ کے مزاحم نہ ہوں۔ اُس وقت السید القائد نے تبسم کیا اور فرمایا ’’میں ابھی جوان ہوں اور ان شاء اللہ فرصت بھی رکھتا ہوں۔ میں خطے اور مقاومت کے مسائل پر خصوصی توجہ رکھتا ہوں لہذا ہم ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست رابطہ میں رہیں گے۔‘‘ انہوں نے امام خمینی ؒ کے برخلاف اپنا کوئی نمائندہ مقرر نہیں کیا تاکہ ہم اپنے خصوصی مسائل میں اُن کی طرف رجوع کریں، لیکن ہم بھی نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے مزاحم ہوتے رہیں اور ہمیں السید القائد کے زیادہ وقت کی ضرورت نہ تھی۔ خاص طور پر ابتدائی سالوں میں، ہمارے پاس جو اصول، اہداف، مبانی، ضوابط اور ایک راستہ موجود تھا، سب مسائل کا حل اس میں موجود تھا، اور معاملات کو منظم کر رہا تھا۔ یہ سب کچھ الہی نعمات میں سے تھا۔ نعمت ہدایت بالکل واضح تھی لہذا ضرورت نہ تھی کہ ہر وقت اِن کے مزاحم ہوتے رہیں۔ اس لیے جیسا السید القائد نے فرمایا ہم نے ویسے ہی اپنے کام کو آگے بڑھا دیا۔ یہ آپ کے سوال کا کچھ جواب ہے، جس میں آپ نے رحلت امام ؒ اور السید القائد کے بعنوان رہبر اور ولی امر مسلمین منتخب ہونے کے بعد اِن سے ہمارے رابطہ کی نوعیت کا دریافت کیا تھا۔
اب رحلت امام ؒ کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں یہ کہا جانا چاہیے کہ وہ بہت خطرناک اور بہت عظیم تھے۔ اُس زمانہ میں ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ اور حساس موضوع، لبنان میں مقاومت کو جاری رکھنا تھا۔ یہ وہ مسئلہ تھا، جس پر السید القائد نے بھی بالکل ابتدا ہی سے تاکید کی تھی۔ السید القائد کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلیٰ حکام کو یہ احکامات اور ہدایات تھیں کہ لبنان اور خطے میں مقاومت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ وہ کہتے تھے جس طرح امام ؒ کی زندگی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سوچ، راہ و روش، اصول اور تہذیب امام ؒ کے مطابق تھی، میں بھی اِسی راستے کو مکمل کروں گا اور اِسی پر تاکید کروں گا۔ بنا براین پروردگار عالم نے ہم پر احسان کیا کہ ایران میں حکومتوں کی تبدیلی، عہدیداروں، وزارت خانوں، سرکاری اداروں میں تبدیلی، سیاسی افکار میں فرق پیدا ہو جانے کے باوجود، اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف اور خطے میں بالخصوص لبنانی مقاومت کی حمایت میں ذرا بھر تبدیلی نہیں آئی۔ نہ صرف ایسا نہیں ہوا بلکہ معاملات بہتر طور پر آگے بڑھے کیونکہ ہر حکومت کے بعد، ہر صدر کے بعد، ہر عہدیدار کے بعد صورتحال بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی۔ یہ سب کچھ حزب اللہ لبنان اور خطے میں مقاومت پر السید القائد کی ذاتی عنایات اور توجہ کی بدولت ہوسکا تھا۔ اب ہم سیاسی واقعات کے تجزیہ و تحلیل میں داخل ہو سکتے ہیں، کیونکہ السید القائد کے ساتھ رابطہ کی نوعیت کو واضح کر چکے ہیں کہ کس طرح رحلت امام ؒ کے بعد ہم نے اِن کے ساتھ مل کر کام کو آگے بڑھایا۔
اُس وقت ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ یعنی السید القائد کی رہبری کے دور میں، لبنان کی داخلی مشکلات تھیں۔ آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں حزب اللہ اور امل ملیشیا کے درمیان کچھ مشکلات تھیں اور السید القائد نے اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دی، لہذا السید القائد کی رہبری کے ابتدائی سالوں میں ہمارے لیے سب سے اہم جو واقعہ ہوا وہ حزب اللہ لبنان اور امل ملیشیا کے مابین موجود اختلافات کا حل ہونا تھا۔ یہ مبارک واقعہ السید القائد کے ارشادات اور اِن کی خصوصی رہنمائی و اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداروں کے حزب اللہ و امل ملیشیا کے ساتھ رابطہ، منجملہ لبنانی پارلیمنٹ کے موجودہ اسپیکر جناب نبی بری اور شامی حکام کے رابطوں کے ساتھ وقوع پذیر ہوا۔ اس طرح لبنان میں مقاومتی گروہ ایک ہو گئے۔ یہ نعمت ہمیں السید القائد کی برکت اور اس مسئلہ پر اِن کی تاکید و حمایت کے ساتھ حاصل ہوئی۔ السید القائد، لبنانی گروہوں کے درمیان پائی جانے والی مشکلات اور جھگڑوں کی نفی کیا کرتے تھے اور ہمیشہ اِن کے درمیان وسیع تر رابطوں اور ہر قیمت پر صلح و صفائی برقرار رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔ اِن کوششوں میں کئی سال لگ گئے یعنی دو سے تین سال لگے کہ ہم اس مرحلہ کو پار کر سکے۔ آج اگر ہم حزب اللہ اور امل ملیشیا کے درمیان قریبی اور اچھے تعلقات دیکھ رہے ہیں، تو یہ السید القائد تھے کہ جن کی رہنمائیوں کے ساتھ اِن تعلقات کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
آج حزب اللہ اور امل کے درمیان روابط صرف حکمت عملی کے تحت نہیں، بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ ہم حزب اللہ اور امل کے درمیان اختلافات کے حل ہونے کی برکات سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے ہم نے راہ مقاومت کو آگے بڑھایا ہے اور ہم لبنان و جنوب لبنان کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سن 2000ء میں صہیونی حکومت کے خلاف حاصل ہونے والی دو بڑی فتح اِسی اتحاد کے سایہ میں ممکن ہو سکی ہیں۔ سن 2006ء اور جنوب لبنان میں صہیونی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ 33 روزہ جنگ میں فتح بھی اسی اتحاد کی بدولت حاصل ہوئی۔ جنگ تموز میں ہم نے مقاومت کی اور دشمن کو عبرت ناک شکست دی۔ آج خطے اور لبنان میں سیاسی کامیابیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حزب اللہ کی سیاسی طاقت، قومی و عسکری قوت کے پیچھے یہی اتحاد اور اچھے روابط ہیں۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ اُس زمانہ میں السید عباس کی شہادت کے بعد ہمارے بھائیوں نے مجھے بعنوان سیکرٹری جنرل انتخاب کیا تو ہم السید القائد سے ملاقات کو گئے۔ انہوں نے بعض موضوعات پر بات کی اور فرمایا ’’اگر آپ چاہتے ہو کہ ہمارے مولا صاحب الزمان عج اور اسی طرح تمام مومنین کے قلوب شاد ہو جائیں تو اپنے ملک میں امن قائم کرنے کی کوشش کریں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے راستے پر چلیں، خاص طور پر حزب اللہ، امل، علامہ فضل اللہ و شیخ شمس الدین کے ساتھ رابطہ رکھے۔‘‘ اُس زمانہ میں علامہ فضل اللہ اور شیخ شمس الدین دونوں بقید حیات تھے۔
السید القائد لبنان میں داخلی اتحاد کو مضبوط رکھنے اور یکجہتی قائم رکھنے پر بہت زیادہ تاکید کیا کرتے تھے۔ وہ شیعوں، شیعہ سنی اور عام طور پر تمام مسلمانوں کے درمیان اتحاد پر زور دیتے تھے، لیکن سب سے اہم اور پہلے نمبر پر حزب اللہ اور امل کے درمیان روابط نیز شیعوں کے اندرونی حالات کا موضوع تھا۔ دوسرا اہم موضوع جس پر وہ تاکید کرتے تھے وہ حزب اللہ کی جانب سے دوسرے لبنانی سیاسی گروہوں کے لیے دروازے کھلے رکھنے کا تھا، چاہے بعض دینی، سیاسی، اعتقادی اور نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہوں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بھی اتحاد قائم ہو، آپ اپنی نجی محافل میں بھی اس بات پر زور دیا کرتے تھے۔ آج اِن تمام موضوعات کا محقق ہو جانا آپ کی قیادت و رہبری کی برکات کے سبب ہے۔ مختلف نشستوں میں آپ مقاومت کو جاری رکھنے، تجاوز کے ساتھ مقابلہ اور جنوب لبنان کی آزادی پر تاکید کرتے تھے۔ اسی وجہ سے السید القائد مقاومت اور اسے بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ وہ تاکید کرکے کہتے تھے کہ مقاومت کو آگے بڑھنا چاہیے، وسیع تر ہو اور آخر کار مقبوضہ علاقے واپس لے لیں۔ لہذا وہ ہمیشہ سنجیدگی کے ساتھ مقاومت کو جاری رکھنے کی ترغیب دلاتے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ اُس زمانہ میں ایک مشکل تھی اور وہ یہ تھی کہ حزب اللہ کے علاوہ بعض دوسرے مقاومتی گروہ اندرونی سیاسی مسائل میں گرفتار تھے، جس کی وجہ سے اُن کی جانب سے مقاومت کا موضوع بھلایا جا رہا تھا۔ یہ چیز باعث بنی کہ مقاومت کی ذمہ داری صرف حزب اللہ اور تحریک امل بلکہ زیادہ تر حزب اللہ تک محدود ہو گئی حتیٰ حزب اللہ کے اندر بھی ہمارے بعض دوست ملکی میدان سیاست میں جانے کی طرف رغبت رکھتے تھے۔ اس سب کے باوجود السید القائد ہمیشہ مقاومت کی ضرورت اور جہادی کاموں کو ترجیح دینے پر تاکید کیا کرتے تھے۔