تحریر : جے اے رضوی
قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اُمت واحدہ کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اس موضوع پر خاصا زور دیا ہے کہ ایک نیک اور پسندیدہ معاشرہ کی حقیقی ترقی میں اُمت واحدہ کا بنیادی کردار ہوا کرتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ لفظ اُمت کا اطلاق اس گروہ یا جماعت پر ہوتا ہے جو احکام خداوندی کے آگے سر تسلیم و اطاعت خم کئے ہوئے ایک مقصد اور واحد ارمان کی طرف گامزن ہو۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ ایک محور کے ارد گرد جمع ہونے والی اُمت واحدہ ہوگی متفرقہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبران خدا اور رسولان الٰہی نے ہمیشہ ایسے ہی معاشرہ کی تشکیل کی کوشش کی ہے اور ایک اُمت واحدہ کی ایجاد میں اپنے الٰہی ارمانات کی جستجو کرتے رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی وجود کی گہرائیوں میں اس مقصد عظیم کی جڑیں ہیں اور آفرینش کا نظام وحدت و یگانی پہ ہی مبنی ہے۔ علامہ اقبال (رہ) باطل طاقتوں کے خلاف کی جانے والی اپنی جدوجہد میں ہمیشہ مسلمانوں کو وحدت و اتحاد کی دعوت دیا کرتے تھے اپنے اہم اشعار میں انہوں نے اُمت اسلامیہ کی وحدت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔
علامہ اقبال (رہ) نے یہ بتایا کہ الٰہی انقلاب کی کامیابی کے لئے اُمت اسلامیہ کے درمیان وحدت و اتحاد کا عملی وجود لازمی ہے۔ آپ تاکید کرتے تھے کہ اسلام ہی مسلمانوں کی تنہا پناہ گاہ ہے اور اس کے پُرافتخار پرچم کے سایہ میں ہر گروہ کے لوگوں کو ان کا جائز حق حاصل ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبال نے بتایا کہ اگر مسلمانوں کی تمام چیزیں مشترک ہیں تو پھر مسلمان ایک کیوں نہیں ہوجاتے، اگر مسلمانوں کو نبی ایک، قرآن ایک، کعبہ ایک، سب ایک نقصان و نفع، دشمن و دوست ایک تو پھر مسلمان متحد کیوں نہیں ہوجاتے۔ علامہ اقبال نے کہا کہ مسلمانوں کی یہ بڑی تعداد کسی کام کی نہیں ہے اگر وہ اختلاف و تفرقہ کے شکار ہوگئی اور باہمی وحدت سے کام نہ لیا۔ علامہ اقبال حرم کی پاسبانی، مسلمانوں کی نجات اور سربلندی کے لئے مسلمانوں کو ایک دیکھنا چاہتے ہیں۔
علامہ اقبال (رہ) نے اپنی ملت کا یہی درد تشخیص کیا، اُمت مسلمہ کا دینی تشخیص یہی ہے، علامہ اقبال (رہ) کی خودی خانقاہی نہیں ہے علامہ اقبال کی خودی یعنی اُمت کا اسلامی تشخیص۔ یہ اقبال کی آرزو تھی یہ اقبال کا درد تھا۔ علامہ اقبال (رہ) کے اندر یہ احساس فقط برصغیر کے مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ پوری اُمت کے لئے موجود تھا۔ علامہ اقبال اور امام خمینی رضوان ﷲ علیہ فقط درس سے نمایاں نہیں بنے بلکہ درد دین انکے اندر موجزن تھا۔ علامہ اقبال کے اندر بھی یہی درد تھا اور وہ درد انہیں آرام و غافل نہیں رہنے دیتا تھا، جس درد نے یہ سارے نالے علامہ اقبال سے اگلوائے، جس درد نے امام خمینی (رہ) سے یہ فریادیں اگلوائیں۔ یہ درد دونوں کا مشترکہ مسئلہ تھا، دونوں رہنماؤں کی یہ آرزو تھی کہ اُمت کو دوبارہ دینی تشخیص نصیب ہوجائے۔ علامہ اقبال نے وحدت اُمت پر بہت تاکید کی ہے ان کے اشعار میں جو وحدت کی خوشبو آتی ہے شاید وہ کسی اور کے اشعار میں نہیں ملتی ہے۔
علامہ اقبال اسلامی معاشرہ میں وحدت و اتحاد کے قائل تھے جو مستحکم اور مقدس بنیادوں پر قائم ہو۔ امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں قرآن مجید کی تعلیمات پر مبنی اسلامی وحدت کے سایہ میں ہم لوگوں کو متحد رہنا چاہیئے۔ یہ کوئی اہم بات نہیں ہے کہ آپ لوگ کسی ایک مسئلہ و معاملہ میں متحد رہے اور تفرقہ و اختلافات پیدا نہ کریں بلکہ حکم خداوندی یہ ہے کہ سب لوگ ’’اعتصام بحبل اللہ‘‘ کی پیروی کریں۔ انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد یہ نہیں رہا کہ وہ لوگوں کو فقط کسی ایک کام کے لئے متحد کردیں بلکہ ان کی آمد کا مقصد تمام لوگاں کو راہ حق میں جمع کرنا ثابت قدم بنایا ہے۔ علامہ اقبال نے اسلامی معاشرہ میں وحدت پہ کافی زور دیا ہے کیونکہ جب تک کوئی قوم یا ملت متحد ہوکر رہتی ہے تب تک وہ عزتمند، جراتمند، محفوظ اور مستحکم ہے۔ قوم و ملت میں اگر انتشار و تفرقہ گھر کرجائے وہ اپنی حفاظت کرپاتی ہے نہ اپنے آئین و میراث کی۔ منتشر و متفرق قوموں کے نصیب میں تذلیل و تحقیر کے سوا کوئی چیز نہیں ہوتی۔
یہی وہ اتحاد ہے جو مسلمانوں کو حقیقی حیات دیکر نیستی کے ظلمت کدوں سے نور اور روشنی کی رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی اتحاد جیسے وسیع تاریخی، اجتماعی اور سیاسی موضوع پر علامہ اقبال نے بہت سارے اشعار لکھے۔ علامہ اقبال (رہ) نے اپنی انداز فکر سے قوم و ملت کو بیدار کیا اور اپنی شاعری میں وحدت و اتحاد کا درس دیا۔ علامہ اقبال جیسے دردمند افراد کا ماننا ہے کہ اسلامی اتحاد کی ضرورت اس لئے ہے کہ اتحاد خدا کی ایسی مضبوط رسی ہے جس سے گمراہی اور تفرقہ کی ذلت سے نجات ملتی ہے۔ علامہ اقبال کا ماننا ہے کہ اسلامی اتحاد کی ضرورت اس لئے ہے کہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت اور کامیابی کا راز پوشیدہ ہے تفرقہ انکی شان و عظمت کو ختم کر دیتا ہے۔ اسلامی اتحاد کی ضرورت اس لئے ہے کہ تفرقہ ڈالنے والوں اور اُمت مسلمہ کو ٹولیوں سے بانٹنے والوں سے پیغمبر اسلام اور اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
وحدت اُمت کی ضرورت اس لئے ہے کہ قرآن کی نظر میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا مشرکوں اور غیر مسلمانوں کا منصوبہ ہے، وحدت اُمت کی ضرورت اس لئے ہے کیونکہ تفرقہ و اختلاف خدا کے عذاب کا سبب بنتا ہے، وحدت اُمت کی ضرورت اسلئے ہے کیونکہ اختلافات سے باطل اوراستعماری طاقتیں مسلمانوں کی تقدیر اور سرنوشت پر حاکم ہوچکی ہیں اور ان کے چنگل سے رہائی اور نجات کا راستہ صرف اسلامی اتحاد میں ہی مضمر ہے۔ وحدت اُمّت کی ضرورت اسلئے ہے کیونکہ اختلافات کے سبب کتنی قومیں برباد ہوگئی ہیں اور آج بھی بہت سے اسلامی ممالک اور ملت اسلامیہ کے ہزاروں افراد استعماری اور استکباری طاقتوں کے ہاتھوں مظلوم اور بے قصور مارے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کی باہمی وحدت و اتحاد نے دنیا بھر کے مفاد پرست اور سامراجی پیکر پر ہمیشہ گہری چوٹ لگائی ہے۔ اسلام دشمن سامراجی طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ و اختلاف پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہا کرتے ہیں تاکہ یہ اُمت واحدہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ کر کمزور اور مغلوب الحال ہوجائے۔ اسلام و مسلمین کی سربلندی و نجات، سرخروی و سرفرازی کے لئے لازم ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنے اصل کی طرف پلٹ آئیں، پھر سے وحدت امت و افضل امت کے لئے قیام کریں۔
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
/۹۸۸/ ن