رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان غلام بننے کیلئے نہیں بلکہ تمدن بشر کا پیشرو بننے کیلئے آیا ہے۔اس لئے اج کے نوجوانوں کو اسلامی حقائق سے پوری طرح باخبر ہونا چاہیے اور انہیں قرآن کے اخلاقی معاشی اور اجتماعی علوم اور سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
شیعیت اور عقیدہ مہدویت کی برکتیں
تلخیص "مقدمہ" کتاب منبع عدل نوشتہ آیت اللہ ابراہیم امینی
الف: شیعوں کے مخالف کا شیعوں پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ " شیعہ مہدی موعود پر اعتقاد رکھتے ہیں اور وہ سکون و عافیت کے عہد کا انتظار کرتے ہیں۔ مصلح غیبی کا یہی اعتقاد شیعوں کی پسماندگی کا سبب ہےجس نے انہیں بے عمل بنادیا ،اجتماعی جد و جہد سے محروم کردیا اور علمی ترقیوں کی فکر کو سلب کرلیا ہے جس کی وجہ سے وہ اغیار کے سامنے ذلیل و خوار ہوکر تسلیم ہوگئے ہیں۔
جواب:مسلمانوں کی پسماندگی اور زوال کا سبب اسلام کے احکام و عقائد نہیں بلکہ خارجی اسباب و عوامل ہیں اس لئے کہ اسلام تو تمام ادیان سے زیادہ اجتماعی اورسماجی امور کا حکم دیتا ہے، ظلم اور فتنہ و فساد کا مقابلہ کرنے پر ابھارتا ہے،نہی عن المنکر کو لازمی اور سماجی انصاف اور امر بالمعروف کو واجب جانتا ہے اور ان دونوں باتوں کو مسلمانوں کی بہترین خصوصیات مانتا ہے بلکہ جو مسلمان دوسرے مسلمانوں کے امور کے اہتمام میں حصہ نہ لے اسے مسلمان نہیں سمجھتا اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ دشمنوں کے مقابلہ میں ہمیشہ مسلح رہو ۔
اب بتائیے اسلام نے مسلمانوں کو علمی، صنعتی ترقی سے کب روکا اور کب کہا کہ "امام مہدی کے ظہور کو نزدیک جان کر اپنی ذمہ دایوں سے سبکدوش ہوجاو" بلکہ آج کے مسلمان اور آج کا انسان خود مستقبل سے ناامید ہوچکا ہے ۔سرد جنگ اور گرم جنگ نے اس کے اعصاب کو تھکا دیا، اسلحہ کی دوڑ اور سامان جنگ کی فراوانی نے خوف کا ماحول پیدا کردیا،کمزور طبقہ کا فقر و فاقہ اور بے روزگاری نے حساس دل رکھنے والوں کو پریشان کردیا ،مادہ پرستی، شہوت پرستی اور فتنہ و فساد کے رجحان نے انسانوں کے اخلاق پست کردیے اور اچھے خیالات رکھنے والے بے چین ہوگئے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر انسانوں کی فلاح و بہبود اور اصلاح چاہنے والے اور مستقبل کی فکر کرنے والے حیران ہوگئے ہیں۔
وہ بحران کو ختم کرنے کی کوشش تو کررہے ہیں مگر وہ اب عاجز آکر انسان کے مستقبل سے مایوس ہوگئے بلکہ یہ وہی افراد ہیں جو کبھی صنعتی انقلاب کے وقت یہ کہتے تھے کہ علم و صنعت کے حصول میں کوئی قباحت نہیں اب وہی لوگ انسانی ترقیوں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں جبکہ ہم بھی یہی کہتے ہیں علم و صنعت کی ترقی میں کوئی مشکل نہیں بلکہ یہ انسان ہے جو اس عظیم نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کے بجائے اس کو راہ فساد کی طرف لے جارہا ہے۔
ایسے ناامیدی اور حسرت و یاس اور خوف و ہراس کے دور میں صرف شیعہ ہی ہیں جنہوں نے ناامیدی کے عوامل کو رد کردیا بلکہ وہ انسان کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں وہ صرف دنیاکے نیک اور شایستہ افراد کو کامیاب مانتے ہیں اور انسان کے بنائےقانون کو عالم کی تنظیم و اصلاح کیلئے ناکافی سمجھتے ہیں وہ صرف اسلام کے کامل قوانین کہ جن کا سرچشمہ وحی الہی ہےانسان کی سعادت کیلئے مفید سمجھتے ہیں وہ ایسے عہد کی بیش بینی کرتے ہیں جس میں زمانے کا نظم و نسق امام معصوم کے طاقتور ہاتھوں میں ہوگا جو ہر قسم کی غلطی شک و شبہ اور مفاد پرستی سے پاک ہوگا شیعہ مکمل طور پر خدا کے کرم پر امید رکھتے ہیں وہ جس کا انتظار کررہے ہیں اپنے آپ کو اس کے عظیم انقلاب کیلئے تیار بھی کررہے ہیں۔دور سکون کا یہ انتظار کامیابی کا راستہ ہے جو ناامیدوں کو امید دلاتا ہے کامیابی کا انتطار کرنے والوں کو منزل مقصود تک پہچنے کیلئے تلاش و کوشش کرنی ہوگی راہ کو ہموار کرنا ہوگا ۔
اسی لیے امام صادق علیہ السلام سے مروی روایات میں کہ آل محمد کی حکومت ضرور قائم ہوگی جو امام کے اصحاب میں شمار ہونا چاہتا ہے اس کو اپنی نگرانی کرنی ہوگی پرہیزگاری اور اخلاق حسنہ کا خیال رکھتے ہوئے انتظار کرنا ہوگا اور ہمیشہ تیار رہنا ہوگا چاہے وہ تیاری اتنی ہی کیوں نہ ہو کہ ایک تیر ہی فراہم کردیا جائے مگر تیار رہنا ہوگا۔اگر تمہیں امام کے دیدار کی توفیق نہ ہوئی اور ظہور سے پہلے موت آگئی تب بھی تمہیں انصار مہدی کا ثواب ضرور ملے گا"۔مسلمانوں کو اس پر یقین رکھنا ہوگا کہ دنیا کی بگڑی تقدیر مسلمانوں کے ذریعے ہی بنے گی کیونکہ یہ اللہ کا حتمی فیصلہ ہے کہ زمین کے وارث اس کے نیک بندے ہی ہوں گے۔
پس اس غیر معمولی عالمگیر انقلاب کیلئے بہت زیاہ صلاحیت کی بھی ضرورت ہوگی اور اسی حساب سے تیاری بھی کرنی ہوگی ۔مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان غلام بننے کیلئے نہیں بلکہ تمدن بشر کا پیشرو بننے کیلئے آیا ہے۔اس لئے اج کے نوجوانوں کو اسلامی حقائق سے پوری طرح باخبر ہونا چاہیے اور انہیں قرآن کے اخلاقی معاشی اور اجتماعی علوم اور سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔انہیں اپنے اس عظیم جہاد میں دنیا کے خیر اندیشوں کو اپنے ساتھ لینا ہوگا اور یہ کام بوڑھوں سے زیادہ جوانوں کا کام ہے کیونکہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :"قائم آل محمد حضرت مہدی عج کے تمام اصحاب جوان ہوں گے اور ان میں ضعیف بہت کم لوگ ہوں گے"۔
ب:عقیدہ مہدویت او ر شیعہ سنی اختلاف ؟
قرآن مجید میں فرعون کے بارے میں ہے کہ وہ لوگوں میں پھوٹ ڈال کر انہیں لڑاتا تھا اور جب وہ لڑ بھڑنے کی وجہ سے کمزور ہوجاتےتو ان پر ظلم کرتا تھا تاکہ وہ فرعون کے خلاف سر نہ اٹھا سکیں آج بھی ہر وہ شخص یا گروہ جو ظلم و اور طاقت کے زور پر کرسی پر بیٹھتا ہے اس کا بھی یہی شیوہ ہوتا ہے اور اب یہی کیفیت مسلمانوں کی بھی ہوگئی ہے سوائے چند افراد کے جو اتحاد بین المسلمین کی راہ کو ہموار کرتے ہیں۔ جن امور میں مسلمان متفق ہیں ان میں سے ایک ظہور امام مہدی کا مسئلہ ہے ۔ ایک مرتبہ کینیا کے ایک مسلمان نے کینیا کے دار الافتاء کے نام خط لکھ کر عقیدہ مہدویت کے بارے میں استفسار کیا تو دار الافتا کی بزرگ شخصیات شیخ صالح،شیخ احمد محمد جمال ، شیخ احمد علی، شیخ عبد اللہ خیاط اور دوسروں نے اپنی دستخط کے ساتھ یہ بات لکھی کہ"احادیث میں ظہور مہدی کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے جس پر اکثر اسلامی فرقوں کا اتفاق ہے سنن ابی داود، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل، ابن یعلی، البزاز نے ان احادیث کا ذکر کیا ہے حافظ ابونعیم نے "اخبار المہدی" نامی کتاب میں اور الخطیب نے"تاریخ بغداد" میں اور ابن عساکر نے "تاریخ دمشق میں ابن حجر نے اپنی کتاب"القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر" میں اور شوکانی نے" التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر و الدجال و المسیح" میں ادریس عراقی نے اپنی کتاب"المہدی" میں ابو عباس بن عبد المومن نے "الوھم المکنون فی الرد علی ابن خلدون" میں باقاعدہ مہدی کی راوایت پر مفصل بحث کی ہے اور مستند علماء اہل سنت نے یہ رائے دی ہے کہ یہ احادیث متواتر اور درست ہیں جن میں سخاوی، محمد بن احمد السفادینی، ابو الحسن البری، ابن تیمیہ، حافظ جلال الدین سیوطی جیسے مستند علماء کے نام لیے جاسکتے ہیں" اس فتوے کے آخر مین شیخ محمد الکنانی نے یہ تحریر فرمایا کہ"خروج مہدی کے بارے میں اعتقاد واجب ہے اور یہ بات اہل سنت و الجماعت کے عقائد کا حصہ ہے اور جو سنت سے جاہل ہیں اور عقیدے میں بدعتیں شامل کرتے ہیں وہ اس سے انکار کرتے ہیں۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ عقیدہ مہدویت میں شیعہ سنی میں اتفاق ہے اگر اختلاف ہے تو بس اتنا کہ سنی کہتے ہیں ابھی امام مہدی کا ظہور نہیں ہوا اور شیعہ کہتے ہیں کہ وہ پیدا ہوچکے ہیں اور زندہ ہیں لیکن حکم الہی سے پردہ غیب میں ہیں ان کی دو غیبتیں ہیں غیبت صغری ستر سال کی ہے جس میں امام مخصوص لوگوں سے ملتے رہے جنہیں شیعہ نائیبین امام کہتے ہیں اورامام زمانہ انہیں ہدایات سے نوازتے رہے اس کے بعد غیبت کبری کا دور شروع ہوا جو اب تک جاری ہے ۔پس عقیدہ مہدویت پر سب کا اتفاق ہے لیکن شیعہ جو امام مہدی کی پیدایش کے قائل ہیں اس کے بارے میں اہل سنت تعجب کا شکار ہیں اور شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں جیسے امام زمانہ کا موجود ہونا ، کسی کو نظر نہ آنا،پردہ غیبت میں زندگی گذارنا،صدیوں تک زندہ رہنا۔ یہ ایسے عنوانات ہیں جن پر مسلمانوں کی اکثریت تعجب کرتی ہے اور حیرت سے پوچھتی ہے کہ امام زمانہ ہیں تو کہاں ہیں؟نظر کیوں نہیں آتے، ان کی اتنی طویل عمر کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس کا جواب یہ کہ بڑی تعجب کی بات ہے جب مسلمان خود ان باتوں کا اعتراف ہیں کہ حضرت عیسی چرخ چہارم پر موجود ہیں اور قرآن خبر دے رہا ہے کہ اصحاب کہف آج بھی زندہ ہیں اور قیامت کے نزدیک بیدار ہوں گے۔اور مسلمان یہ بھی مانتے ہیں کہ جناب خضر اسی دنیا میں رہتے ہوئے لوگوں کی انکھوں سے پوشیدہ ہیں تو کیا اللہ کے اذن سے امام مہدی زندہ نہی ہوسکتے اور کیا وہ لوگوں کی نظروں سے غایب نہیں رہ سکتے کیا امام مہدی کی غیبت اور عمر طولانی پر مسلمانوں کے اعتراض کو عقل تسلیم کرسکتی ہے جبکہ تاریخ اور معتبر روایات امام مہدی کے وجود کی خبر دیتے ہیں ۔
حجت الاسلام محمد عباس مسعود حیدرآبادی
نزیل حوزہ علمیہ قم
مدیر معصومہ قم اسلامک انسٹیٹیوٹ