تحریر: سید مجاہد عباس شمسی
آخرین منجی موعود کا نسل رسول خدا (ص) سے ہونا، آنحضرت (ص) کا ہمنام ہونا، اس کا لقب مھدی اور آخری زمانہ میں اس کے قیام کا انتظار ہونا، تمام اسلامی فرق کا مشترکہ ایمان و عقیدہ ہے۔ البتہ موضوع مہدویت میں کچھ اختلافات بھی پائے جاتے ہیں، ان اختلافی مسائل میں سے ایک بنیادی مسئلہ، ولادت امام مھدی (ع) ہے۔ اہل بیت (ع) کے پیروکار قائل ہیں کہ وہ مہدی کہ جسکا انتظار کیا جا رہا ہے، وہ صرف اور صرف فرزند ارجمند امام حسن عسکری (ع) ہے، جوکہ تیسری قرن کے درمیان میں پیدا ہو چکا ہے، لیکن اہلسنت کی اس بارے میں نظر یہ ہے کہ یہ اعتقاد بغیر دلیل کے ہے اور امام (ع) کی ولادت آخر زمان میں ہوگی۔ اگرچہ کسی کی بھی اثبات ولادت کے لئے تاریخ کا سہارا لیا جاتا ہے، لیکن چونکہ مہدویت ایک عقیدہ ہے تو اس عقیدے کی تحقیق کے لئے کلام خدا یا کلام مصطفٰی (ص) کا ہونا ضروری ہے، اور کچھ مسلمان تو بالکل عقاید کے بارے حدیث کے علاوہ تاریخ کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔ اس لئے شیعیان اہل بیت (ع) اس بارے میں تاریخی دلائل کے بیان کیساتھ ساتھ احادیث سے بھی اثبات ولادت کرتے ہیں، اور انہی احادیث میں سے ایک دلیل، حدیث (بارہ جانشین پیامبر) ہے۔ یہ حدیث جوکہ فریقین کے مھم ترین منابع حدیثی میں بصورت مکرر ذکر ہوئی ہے، اس کے مطابق پیامبر اسلام (ص) نے اپنے بعد اپنے بارہ جانشین کا اپنی امت میں اعلام فرمایا ہے۔
اہلسنت کا دعوٰی بلا دلیل:
اس سے پہلے کہ اثبات مدعا کیا جائے، ایک سوال لاجواب عرض خدمت ہے! طبق قوانین کلام، جو دعوی کرتا ہے وہ دلیل بھی پیش کرے، تو اہلسنت کے اس دعوٰی کے لئے کیا دلیل ہے کہ امام (ع) آخر زمان میں متولد ہوںگے؟جب پیامبر اسلام (ص) نے اپنے اس جانشین کی بہت سی خصوصیات بیان کی ہیں تو حتما اس مہم نکتہ کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے۔ جب اس سوال کے جواب کے لئے اہلسنت کی کتب احادیث کا مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ یہ سوال، خود انکے لئے بھی سوال ہے۔ حتٰی جلال الدین سیوطی جیسے عالم دین کہ جنہوں نے تقریبا تمام احادیث مھدویت کو جمع کیا اور ۲۵۷ احادیث کے مجموعہ کو اپنی کتاب "الحاوی للفتاوی" کے باب "العرف الوردی فی اخبار المھدی" میں ذکر کیا ہے، وہ اور دوسری تمام روایی کتب میں اس مدعا پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ عجیب تو یہ ہے کہ بعض علماء نے ولادت کا باب ذکر کیا جیسا کہ اسفارینی نے اپنی کتاب "لوامع الانوار البھیہ" میں ذکر کیا، "الخامسة في مولده و بيعته و مدة ملكه و متعلقات ذلك" (1) پانچواں باب امام (ع) کی جائے ولادت، بیعت، حکومت اور اس کے متعلقات میں۔ لیکن اس کے ذیل میں صرف ایک روایت ذکر کی اور وہ بھی مکان ولادت کے بارے میں ہے، نہ کہ آپ آخر زمان میں متولد ہونگے! وہ یہ ہے، "المهدي مولده بالمدینہ من أهل بيت النبيﷺ و اسمه اسمي و اسم أبيه و اسم أبي و مهاجره بيت المقدس" مھدی (ع) کی جائے ولادت مدینہ رسول ہے۔۔۔ صرف ایک حدیث کا ذکر ہونا دلالت ہے کہ ولادت پر اس حدیث کے علاوہ اور کوئی حدیث نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس کتاب اور باقی سب کتب میں جب امام زمان (ع) کے بارے ذکر ہے تو یخرج "وہ خروج کرے گا" ،سیظھر "وہ ظہور کرے گا"، یبعث "وہ مبعوث ہو گا" جیسے کلمات ذکر ہوئے ھیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ متولد ہو چکا ہوگا اور ظاھر ہوگا۔ اب صرف ایک حدیث کو ذکر کرتے ہوئے، اثبات ولادت پیش خدمت ہے۔
متن حدیث (بارہ جانشین)، منابع اہلسنت میں:
یہ حدیث، اہلسنت کے قدیمی اور معتبر منابع میں، ابوجحیفہ اور جابر بن سمرہ سے نقل ہوئی ہے۔ اختصار کے سبب اور اس حدیث کی شہرت کی وجہ سے یہ ذکر اسناد اور اسمای کتب سے بالاتر ہے۔ "إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ لَا يَنْقَضِي حَتَّى يَمْضِيَ فِيهِمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً قَالَ ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلَامٍ خَفِيَ عَلَيَّ قَالَ فَقُلْتُ لِأَبِي مَا قَالَ قَالَ كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ"جابر بن سمرہ روایت کرتا ہے کہ مین ایک دفعہ اپنے باپ کے ساتھ حضور ﷺ کی خدمت میں شرفیاب ہوا، تو آپکو یہ فرماتے ہوئے سنا، دنیا تمام نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس میں بارہ خلیفہ خلافت نہ کریں۔ سمرہ کہتا ہے کہ پھر آپ نے آہستہ آواز میں کلام کیا جو میں نے نہیں سنا تو میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا؟ تو اس نے کہا آپ نے فرمایا، یہ تمام قریش سے ہوں گے۔ (2)
تحقیق:
اس حدیث کی سندی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تقریبا فریقین نے نقل کیا اور کسی بھی زمانہ میں کسی نے بھی اس کو ضعیف نہیں کہا۔ اس حدیث کے متن میں غور و حوض سے، بہت سے موتی نکلتے ہیں لیکن مھم ذکر ہیں۔
1۔ انحصار خلافت رسول خدا ﷺ صرف بارہ افراد میں ہے۔ "حَتَّى يَمْضِيَ فِيهِمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً "۔
2۔ تمام افراد قریشی ہیں، "کلھم من قریش"3۔ ان افراد کی حکومت کے بغیر، دین اسلام اختتام پذیر نہیں ہوگا، "لا ینقضى حتٰى یمضى فیهم إثنا عشر خلیفة"۔
4۔ قیام دین، عزت اسلام اور اصلاح امت، قیامت تک انہی افراد سے اختصاص رکھتے ہیں۔ "لَا یَزَالُ الْإِسْلَامُ عزِیزاً إِلَى اثْنَیْ عشَرَ خَلِیفَةً"
5۔ کچھ احادیث میں بیان ہوا ہے کہ جب آپ ﷺ نے اپنے ۱۲ جانشین کا اعلان کیا تو اس مجلس میں ایسا شور و غل ہوا کہ جابر بن سمرہ کو آنحضرت کے الفاظ ہی سنائی نہ دیئے، اسی لئے تو اس نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا؟ اور اس نے جواب دیا کہ آپ نے فرمایا، وہ تمام قریش سے ھونگے۔ اس نکتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت، رہبران دین کے اعلان کے بارے کچھ اصحاب کے لئے نامناسب تھا۔ (3)
6۔ کلمہ (خلیفہ) کے لغوی معنی کو دیکھتے ہوئے، یہ مھم نکتہ ملتا ہے کہ یہ خلافت پے درپے اور بغیر فاصلہ کے ہونی چاہیئے؛ کیونکہ خلیفہ اس کو کہا جاتا ہے کہ جو اپنے سے پہلے کا بلافصل جانشین ہو۔ اس بات کی تائید کے لئے چند لغت دانوں کے اقوال عرض خدمت ہیں۔ ابن فارس مادہ (خلف) کے بارے لکھتا ہے کہ خلافت کو اس لئے خلافت کہا جاتا ہے کہ دوسرا شخص، پہلے شخص کی جگہ پر آ کر بیٹھتا ہے۔" (4)۔
حدیث کی ولادت امام زمان علیہ السلام پر دلالت:
ان احادیث کے مضمون سے، ولادت امام زمان علیہ السلام کو دو روش سے ثابت کیا جا سکتا ہے؛
پہلا طریقہ: نوع دلالت حدیث، ولادت امام زمان علیہ السلام پر
ولادت امام زمان علیہ السلام کے بغیر ان روایات کے مضمون کا پیام اصلی، یعنی رسول خدا ﷺ کے بارہ خلیفوں کا استمرار امامت، قیامت تک بے معنی ہو جائے گا۔ اور اس روایت سے اخذ کئے گئے چھ نکات پر غور اور ان نکات کی روایات تشیع پر تطبیق سے، دلالت مطابقی سے امام مھدی علیہ السلام کی ولادت ثابت ہے، چونکہ روایات تشیع میں واضع طور پر ان بارہ کے نام ذکر ہیں، بلکہ نہ صرف پیامبر اسلام ﷺ نے خبر دی، بلکہ امام علی علیہ السلام سے امام حسن عسکری علیہ السلام تک ہر امام نے ان کی ولادت کی خوشخبری دی، لیکن اہلسنت کی ان روایات کو امام مھدی علیہ السلام کے نسب کے بارے جو اہلسنت کی کتب میں روایات پائی جاتی ہیں، سے ضمیمہ کرنے سے، دلالت التزامی کے ذریعے امام زمان علیہ السلام کی ولادت کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ روایات اہلسنت میں نسب امام زمان علیہ السلام، نسل رسول خدا ﷺ، بنی ھاشم، انکی عترت اور اولاد حضرت علی و فاطمہ اور صلب امام حسین علیھم السلام، بیان کیا گیا ہے۔ ان روایات کو اختصار کی وجہ سے ذکر نہیں کر سکتے۔
اس حدیث کے نکات سے یہ روشن ہوا تھا کہ خلافت رسول خدا ﷺ صرف بارہ افراد میں منحصر ہے اور نسب والی روایات سے پتا چلا کہ وہ افراد خاندان قریش اور بنی ھاشم سے ہونگے، جنکے آخری مھدی علیہ السلام اور وہ بھی رسول خدا کے فرزند، انکی عترت، اہلبیت، اولاد علی و فاطمہ اور اسی طرح صلب امام حسین سے ہیں۔ جیسا کہ نکات حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ خلیفہ کا مطلب بلافصل آنا ہے تو امام حسین علیہ السلام تک تو واضع ہے، اگرچہ امام حسین سے پہلے جسکو بھی خلیفہ مانا جائے، لیکن ان سے آگے اہلسنت کے منابع روایی ساکت ہیں اور زمان رحلت پیامبر اسلام سے اب تک فاصلہ زمانی بہت زیادہ ہے، پس اس مسئلہ کا حل دو احتمال سے خارج نہیں ہے۔ یا تو بارہ جانشین میں سے ہر ایک کی عمر طولانی ہو یا پھر کسی ایک کی عمر طولانی ہو تاکہ پیامبر اسلام ﷺ کے بعد سے اب تک بلا فصل انکی خلافت ثابت ہو، وگرنہ انکی یہ حدیث بغیر مفھوم کے ہی رہے گی اور وہ حدیث کہ جو شیعہ و سنی منابع میں صحیح ترین حدیث مانی جاتی ہے، وہ اپنا اعتبار کھو دے گی، اور اگر ایسا ہو تو اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ نعوذ باللہ آپﷺ بغیر سوچھے سمجھے اور بلامعنی ارشاد فرما دیتے تھے۔ پہلے احتمال کا بطلان تو اظھر من الشس ہے، کیونکہ یہ بالکل تاریخ کے عین مخالف ہے کہ رسولﷺ کے بعد بارہ آدمیوں کی اتنی لمبی زندگی ہو، کسی تاریخ میں نہیں ملتا۔ پس صرف دوسرا احتمال باقی بچ جاتا ہے کہ ان میں سے بعض کی زندگی طولانی ہو۔ اور یہ گیارہ افراد جو بھی ہوں، ضروری ہے کہ بغیر فاصلہ زمانی، ایک دوسرے کے بعد دنیا میں تشریف رکھتے ہوئے، اپنے بعد خلافت رسالت کو آنے والے کے حوالے کریں تاکہ انکے بعد بارہویں خلیفہ کی باری آئے۔ پس ضروری ہے کہ وہ بارہواں دنیا میں پیدا ہو چکا ہو چونکہ محال ہے کہ پیامبر اسلام کے بعد سے اب تک گیارہ تو گزر چکے ہوں لیکن بلافاصلہ زمانی، آخری نہ آیا ہو۔
دوسرا طریقہ: بارہ جانشین کا تعیین مصداق
اس طریقہ اور روش میں فریقین کی روایات سے، ان بارہ جانشینوں کے لئے جو مصداق بیان کئے گئے ہیں ان کو ذکر کرتے ہوئے، اپنے مقصود کو اثبات کیا جا سکتا ہے۔
شیعہ احادیث کی کتابوں میں حدیث کا مصداق:
شیعہ روایات کی نظر میں ان بارہ جانشینوں سے مراد، اہلبیت علیھم السلام سے بارہ نفر مراد ہیں جنکو احادیث میں بارہ خلیفہ کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اور وہ وہی ہیں جو شیعیان اہلبیت کے بارہ امام ہیں۔ جن میں سے پہلے علی علیہ السلام اور آخری مھدی علیہ السلام جو کہ ابھی زندہ اور مصلحت خدا کی وجہ سے غائب ہیں۔ یہ بارہ نفر پے درپے اور بلا فصل خلافت رسول ﷺ کے چمکتے آفتاب ہیں۔ پس روایات اثنا عشر خلیفہ کی بارہ اماموں پر تطبیق، بغیر کسی اشکال کے ہے اور موجب اعتبار روایات،بارہ خلیفہ، اور نسب امام مھدی علیہ السلام ہے۔
سنی احادیث کی کتابوں میں حدیث کا مصداق:
ایک طرف تو رسول خدا کی بہت سی احادیث، اپنے جانشینوں کے بارے کتب اہل سنت میں پائی جاتی ہیں اور دوسری طرف علمائے اہلسنت اور اسی طرح کتب حدیثی ان کے مصداق (شیعہ بارہ اماموں کے علاوہ) کے بیان سے ناتوان ہیں۔ ان بارہ خلیفہ کے بارے ابتداء سے اب تک، علمائے اہلسنت نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح ان احادیث کو تطبیقی جامہ پہنایا جا سکے اور اس ان کے بارے بہت سی تفاسیر بیان کی ہیں لیکن ابھی تک یہ چیلنج انکے لئے باقی ہے۔ ان تفاسیر میں سے دو مھم تفاسیر اور انکا ضعف عرض خدمت ہے۔
تفسیر اولَ:
ان بارہ خلیفوں سے مراد حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت امام علی علیه السلام، معاویه، یزید بن معاویه، معاویه بن یزید، مراون بن حکم، عبدالملک بن مروان، ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک و عمر بن عبدالعزیز ہیں۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ انکے دور میں اسلام کو قوت ملی اور ان پر اجماع تھا۔ اس تفسیر کو ابن حجر نے اپنی کلامی کتاب میں کتاب فتح الباری کے توسط سے، قاضی عیاض کی طرف نسبت دی ہےکہ وہ لکھتا ہے، شیخ السلام نے "فتح الباری" میں کہا ہے کہ قاضی کا یہ کلام، احسن اور ارجح ہے اور اپنے قول کی تائید کے لئے اس نے رسول خدا ﷺ کا یہ قول "کلھم یجتع علیہ الناس" کو لایا ہے اور پھر کہا کہ اجتماع سے مراد، انکی بیعت ہے۔(5)
اشکال:
اس تفسیر کا ضعف اور بطلان، ہر عاقل اور صاحب انصاف انسان کے لئے روشن ہے، کیونکہ خلیفہ رسول ﷺ سے مراد یہ ہے کہ جو بھی انکا جانشین ہو، وہ کردار اور رفتار میں کتاب خدا اور سیرہ و سنت بنی ﷺ کے مطابق ہونا چاہئے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی مخالف کتاب یا سنت پیامبر ﷺ ھو تو نہ صرف یہ تفسیر باطل ھو گی بلکہ خود اسکی خلافت بھی باطل ہوگی۔ ان افراد میں سے کچھ کو خلیفہ رسول کہنا ہی مناسب نہیں لیکن ابن حجر جیسے بزرگ عالم دین اور ان جیسے دوسرے، اس تفسیر کو احسن اور ارجح مانتے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ خلفائے اسلام کو تاریخ و مسلمانان اسلام نے مورد طعن قرار دیا ہے اور ان میں سے برجستہ شخصیت، یزید کی ہے کہ جسکی جنایات، فسق و فجور کو جلال الدین سیوطی نے ایسے بیان کیا ہے کہ مسلمان پڑھ کر شرم محسوس کرتا ہے۔(6)
تفسیر دوم:
دوسری تفسیر ان افراد کی تطبیق کے لئے یہ بیان کی گئی ہے کہ ضروری نہیں یہ افراد بلافصل اور پے در پے آئیں، بلکہ ان بارہ سے مراد، پہلے چار خلیفہ اور امام حسن علیہ السلام، معاویہ، ابن زبیر اور عمر بن عبد العزیز ہیں اور باقی چار خلیفہ قیامت سے پہلے آئیں گے کہ جنکا آخری مہدی علیہ السلام ہوگا۔ (7)
اشکال:
اولا: خلیفہ کا لغوی اور اصطلاحی معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ تفسیر بھی درست نہیں ہے، کیونکہ جیسا کہ نکات حدیث میں ذکر کیا ہے کہ خلیفہ سے مراد بلافصل آنا ہے، تو جہاں بھی یہ اتصال ٹوٹ جائےگا وہیں سے خلافت پیامبر ﷺ باقی نہیں رہے گی۔
ثانیا: چاہے اہلسنت کی یہ تفسیر ہو، پہلی تفسیر یا کوئی بھی تفسیر، اس پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے جیساکہ روایات اہلسنت میں (تمام بارہ افراد کا قریش اور پھر بنی ھاشم سے ھونا)، پایا جاتا ہے تو کسی صورت میں بارہ ہاشمی خلیفہ بلافصل ثابت نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان تفاسیر میں اموی اور عباسی خلیفہ بھی شامل ہیں۔ علما اہلسنت میں ان روایات کی تطبیق پر اس قدر اختلاف ہونا، اس بات پر دلیل ہے کہ یہ سب تفاسیر باطل ہیں، کیونکہ بارہ نفر کی تطبیق میں صرف ایک ہی تفسیر ہونی چاہیئے۔ جب منابع اور علمائے اھل سنت اس حدیث کو تطبیق دینے سے قاصر ہیں، تو روشن ھو جائے گا کہ انکے نزدیک اس حدیث کے حقیقی مصداق نہیں یعنی وہ اس حدیث کا صحیح مفھوم نہیں دے سکتے۔ علمائے شیعہ اور منابع روایی شیعہ بغیر کسی اشکال و ضعف کے مصداق حقیقی رکھتے ہیں تو حقیقت میں ان روایات کا صحیح مفھوم بھی انہی کے پاس ہے اور احادیث میں سب سے زیادہ مہم نکتہ، فھم و فقہ حدیث ہے، چونکہ جس حدیث کے مفھوم میں اس قدر اختلاف و اشکال ہو تو وہ حدیث اپنا اعتبار کھو دیتی ہے اور اس کے ساتھ متکلم حدیث پر بھی اشکال وارد ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ رسول خدا ﷺ کی اس موضوع پر اس قدر روایات اگر معنی و مفھوم درست اور محکم کے بغیر رھہں تو فرامین آنحضرت ﷺ لغو و مھمل ہو جائیں گے جو کہ غیر معقول ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
1۔ اسفاريني حنبلي، لوامع الانوار البهیه، ج2، ص81۔
2۔ القشيري النيسابوري، صحيح مسلم، بی تا: /1453،ح5۔
3۔ محمدی ری شهری، دانشنامه امام مهدی،1393ش: 1/346۔
4۔ ابن فارس، معجم مقاییس اللغة، 1420ه ق: 304۔
5۔ إبن حجر الهيثمي، الصواعق المحرقه، ج2، ص476 و 478) (ابن الجوزی، کشف المشکل ، 1418ق: 1/ 449). (ابن حجر، فتح الباری ، 1379ق: 13/211تا215)ابو نعیم۔
6۔ سیوطی، تاریخ الخلفا، ص244 و 246)دلائل النبوه، ،1412ق: 6/520)۔
7۔ إبن حجر الهيثمي، الصواعق المحرقه، ج2، ص476 و 478)۔
/۹۸۸/ ن