رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جس ملک میں 1.3 ارب افراد طبی ایمرجنسی یا لاک ڈاؤن اور فیس ماسک جیسی بنیادی چیزوں کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، وہاں حکومت کی جانب سے کروڑوں ڈالر ہتھیاروں اور اسلحوں پر خرچ کرنے سے عوام کی تشویش میں اضافہ ہونا ضروری ہے۔
اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان 11 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا معاہدہ ہوا ہے، جبکہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر اپنی خدمات پیش کرنے والے ڈاکٹرز ماسک اور دیگر دفاعی وسائل کی کمی کی شکایت کر رہے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ مودی کی حکومت اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لئے کتنی آمادہ ہے، جو اب ہندوستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
گزشتہ پیر کے روز وبائی امور کے ایک ماہر ہندوستانی ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ملک میں 55 فیصد یا تقریبا 71 کروڑ 50 لاکھ افراد وائرس میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور مئی تک تقریبا 30 ہزار ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔
وبا کے تیزی سے بڑھتے اثرات اور عالمی اقتصاد پر اس کے اثرات مرتب ہونے کے درمیان پہلے سے ہی بحران کا سامنا کر رہا ہندوستانی اقتصاد، اس حساس دور میں شدید فوجی اخراجات کو برداشت کر پائے گا، اس میں شک ہے۔
دہلی یونیورسٹی میں عالمی تعلقات اور عالمی سیاست کے ریٹائرڈ پروفیسر سچن وینایک نے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کو بہت ہی معمولی اور قابل مذمت قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی حکومت کو 1.3 بلین آبادی والے ملک میں تیزی سے پھیل رہی کورونا وبا کے شدید خطرے سے نمٹنے کے لئے ایک ایک روپے کی ضرورت ہے۔ یورپ اور امریکا کی بہ نسبت یہاں کے افراد بہت ہی زیادہ آبادی والے شہروں اور قصبوں میں رہ رہے ہیں، حتی چین اور ایشیا کے دیگر ممالک کی بہ نسبت ہندوستان میں ایمرجنسی کے حالات سے نمٹنے کے لئے طبی نظام بہت ہی کمزور ہے۔
جمعرات کے روز جس معاہدے کو حتمی شکل دی گئی وہ بنیادی طور پر فروری 2018 سے متعلق ہے اور یہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے کئے گئے ہتھیاروں کے متعدد معاہدوں کا ایک حصہ ہے۔
حالانکہ ہندوستان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ہندوستانی فوج کو ہتھیاروں کی بے حد ضرورت ہے اور اس سے فوجیوں میں خود اعتمادی بڑھے گی۔
تاہم دہلی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ شدید اور ایک بڑے بحران کے وقت ہتھیاروں کو ترجیح دینا، بی جے پی حکومت کی جانب سے ہندوستان کو ایک سیکورٹی ریاست میں بدلنے کا وسیع منصوبے کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ مودی کے پاس اس بحران سے نمٹنے کے لئے کوئی راہ حل نہیں ہے، ہمارے ڈاکٹرز کے پاس کافی مقدار میں حفاظتی وسائل نہیں ہیں، ہمارے پاس ماہرین کی جانب سے پیش کئے گئے مشوروں کے مطابق کورونا کا ٹیسٹ کرنے کی بھی توانائی نہیں ہے۔
اسی طرح، ہندوستانی کمیونیسٹ پارٹی کی رہنما کویتا کرشنن کا کہنا تھا کہ حکومت نے ابھی تک وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اُن غریبوں اور مزدوروں کے لئے کسی طرح کے امدادی پیکج کا اعلان نہیں کیا ہے جو ہر دن کماتے ہیں اور کھاتے ہیں اور اس کے بجائے حکومت ہتھیاروں کی خریداری میں زیادہ دلچسپی دکھا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر روز کما کر کھانے والے مزدوروں کو اچانک اپنے گاؤں اور آبائی وطن لوٹنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، جو جاتے ہوئے شاید وائرس سے متاثرین کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ہوں اور اس طرح سے گاؤں میں رہنے والوں کی زندگی کو بھی خطر سے دوچار کر دیا گیا۔
حالیہ برسوں میں ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں کافی مضبوطی دیکھنے میں آئی ہے، خاص طور پر مودی اور نتن یاہو کے دور اقتدار میں، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ہتھیاروں کی تجارت، تعلقات کی بنیاد ہے یا مسلمانوں کی دشمنی یا پھر دونوں؟
ادارہ مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
/