رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تحریک بیداری اُمت مصطفیٰ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید جواد نقوی نے لاہور میں خصوصی نشست بعنوان "امر بالمعروف و نہی عن المنکر، دفاع دین کا نظام" سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک سرزمین پر دشمنان دین و دشمنان اسلام کی جانب سے تیار کیا جانیوالا فتنہ دم توڑ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے دین کے مقابلے میں اٹھنے والے اس فتنے کو ناکام کیا ہے اور مومنین کو اس فتنے سے محفوظ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کی راہ میں نکلیں تو اللہ نصرت کرتا ہے، یہ فتنوں کا زمانہ ہے اور فتنوں کا سب سے زیادہ شکار مکتبِ اہلبیت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فتنے شروع سے ہی رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان فتنوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھا ہے، آج کی فتنے گذشتہ تاریخ کے فتنوں سے مختلف ہیں، ان کا انداز، ترکیب اور عناصر مختلف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بنی امیہ اور بنو عباس کے مظالم اور ان کے بعد کے حکمرانوں نے ایک کام مشترکہ کیا، وہ ہے تشیع کی سرکوبی، یہ ان کا مشترکہ ایجنڈا تھا، آئمہ علیہ السلام بھی ان کے زیرعتاب رہے اور شہادتیں پائیں، اسی طرح اہلبیت کے پیروکار بھی ان کے شکنجوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں، بعضوں نے ہجرت کرکے اپنے آپ کو ان کے شر سے بچایا ہے اور بعض ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شیعیان علی پر ہونیوالے مظالم کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی، ان مظالم سے تشیع گوشہ نشین ہوگیا، کہیں تکیہ میں چلے گئے، کہیں اپنی پہچان چھپا کر رکھی، اپنے مکتب کی شناخت نہیں بتائی۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ علماء نے ماحول سازگار ہونے پر تشیع کو دوبارہ فروغ دیا اور تشیع فکر دنیا میں پھیلی۔
انہوں نے کہا کہ دنیائے اسلام میں تشیع سب سے مظلوم طبقہ رہا ہے، انہی سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ انہیں زمین کی وراثت عطا فرمائے گا۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی نے تشیع کو نئی زندگی دی، جنہوں نے تشیع کو گوشہ گمنامی سے نکالا اور شیطانی طاقتوں کے سامنے کھڑے ہو کر ولایت و امامت کا نظام قائم کیا، یہی نظام سامراج کیلئے چیلنج بنا ہوا ہے، 40 سال سے یہ نظام ختم نہیں کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ شیاطین کے سینے میں تشیع کیلئے کینہ ہے، شیاطین کے غرور کو تشیع نے خاک میں ملا دیا ہے۔ اسلام کی طاقت کا راز تشیع میں ہے اور تشیع کی طاقت کا راز ولایت میں ہے۔ جب شیاطین کو تشیع کے ہاتھوں تاریخی رسوائی ہوئی ہے تو انہوں نے اپنا کینہ ظاہر کیا اور ولایت کو نشانہ بنایا۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ عالمی اُفق پر دیکھیں تو امریکہ، اسرائیل، عرب ممالک یہ سب ایک نقطے کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور وہ ہے ایران، ایران کیوں ان کی آنکھ کا کانٹا بن گیا ہے، ایران تو کل تک ان کا چہیتا تھا، شاہ کی حکومت تھی تو ایران امریکہ و اسرائیل کا دوست تھا، عربوں کیساتھ بھی اچھے تعلقات تھے، آج ایران سے دشمنی اس لئے ہوئی ہے کہ وہاں نظام ولایت آگیا ہے۔ یہ دشمنی ایرانیت کی وجہ سے نہیں، بلکہ نظام ولایت کی وجہ ہے۔
آج اگر ایران سے ولایت کا نظام ختم ہو جائے، یہ دشمنی ختم کر دیں گے۔ سعودی عرب دیوالیہ ہونے کو ہے، تشیع کو کچلنے کیلئے سرمایہ ادھر خرچ کر رہا ہے، صدام کو استعمال کیا گیا، مگر آج انہیں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ داعش اور طالبان بنانے والے آج دیکھتے ہیں کہ تشیع قتل عام کا شکار ہونے کے باوجود زیادہ طاقتور ہے۔
انہوں نے کہا کہ تشیع کے اندر داعش جیسے گروہ تشکیل دیئے گئے ہیں، ایم آئی سکس نے اس پر سرمایہ لگایا ہے، علمائے جمع کئے ہیں، مرجعیت کی حد تک دشمن نے بندے تیار کئے ہیں، شیرازی خاندان مرجعیت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن تشیع کے دشمن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دیگر طبقات جن میں ذاکرین شامل ہیں، ان میں بھی ایسے گروہ بنائے جو لوگوں کو تشیع کی دشمنی پر اُبھاریں، یہ تشیع کے نام پر ایسا کام کریں، جس سے تشیع بدنام ہو، یہ تشیع کے نام پر دوسروں کے مقدسات کی توہین کریں اور الزام تشیع پر آئے اور اسی طرح کا منشور انہیں دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فتنے زیادہ پنپتے ہیں، دنیا میں ناکام ہونیوالا فتنہ پاکستان میں کامیاب ہو جاتا ہے، یہ طبقہ اب منظم انداز میں میدان میں اُتر آیا ہے اور 6 جولائی کو لاہور میں جو فتنہ ناکام ہوا ہے، وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔
انہوں نے کہا کہ انقلاب ایران کے بعد تشیع کو عروج ملا اور اس سے علماء کو احترام ملا۔
انہوں نے کہا کہ ولایت کے نمک خواروں کو ولایت کے نمک کا حق ادا کرنا چاہیئے، آج جو پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں، ان کو یہ سٹیٹس ولایت کی بدولت ملا ہے۔ 80 کی دہائی میں جب دہشتگردی شروع ہوئی، اس دور میں تشیع کی تکفیر شروع کی گئی۔ جب علماء سے پوچھتے، اس کا علاج کیا ہے، تو وہ جواب دیتے، یہ خود ہی بھونک بھونک کے تھک جائیں گے۔ لیکن یہ فتنہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا۔ یہ بھونکنے سے آگے ہو کر کاٹنے لگے، لیکن یہ علماء جو کہتے تھے، بھونک بھونک کے تھک جائیں گے، خود کمروں تک محدود ہو گئے۔کیونکہ جب فتنہ اٹھ رہا تھا تو یہ دیکھتے رہے، اس کا سدباب نہیں کیا۔ فتنہ وہ شر ہے، جو خود ختم نہیں ہوتا، اسے ختم کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تکفیریت کے فتنے نے ہزاروں شیعوں کو شہید کیا۔ تکفیریت کو روکنے کی بجائے بعض علماء نے بیرون ملک جا کر سیاسی پناہ لے لی۔ اس فتنے کی سرپرستی حکومتی اداروں بھی کرتے رہے، ضیاءالحق کی باقیات نے اپنا رنگ دکھایا، کسی نے اس فتنے کیخلاف مذمتی بیان تک نہیں دیا، تشیع کے بعد بریلوی اور دیوبندی بھی اس فتنے کا شکار ہوگئے، درباروں اور مساجد پر حملے ہوئے۔ اگر یہ فتنہ حکومت روک لیتی، علماء اور عوام اس فتنے کو روک لیتے تو یہ اتنا خطرناک اور منہ زور نہ ہوتا۔ اب چند سالوں سے پاکستان میں اس کا لگام دی گئی ہے۔ اب امن ہوا ہے تو پھر اس فتنے کو دوبارہ زندہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ہے، تو فتنہ پھیلانا بہت آسان ہوگیا ہے، لیکن آج بھی وہی رویہ ہے جو 20 سال پہلے تھا، کہ ان کو اہمیت نہ دو، یہ دو ٹکے کے لوگ ہیں، لیکن یہ فتنہ ہے، اس کو نطفے میں ختم کیا تو یہ ختم ہوگا، بڑھنے دیا تو 80 کی دہائی والے نتائج ہی سامنے آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال بھی نوجوانوں نے فتنے کیخلاف ہمت دکھائی اور ناصر باغ میں اجتماع کیا، حالانکہ انتظامیہ اس اجتماع کو نہیں ہونے دے رہی تھی۔ پاکستان میں مراجع کرام کی توہین ہوتی ہے، مگر مقلدین خاموش رہتے ہیں۔ اگر انہیں کہیں فتنے کو جواب دیدو، وہ اس کو بھی جائز نہیں سمجھتا۔ فتنے کے مقابلے میں لاکھوں لوگ نکلے۔ انہوں نے نشست کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں نے اس فتنے کے مقابلے کیلئے ہمت باندھی اور اللہ نے آپ کی نصرت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جو خود کو رہبر کی آنکھوں کی ٹھنڈک کہتے ہیں اور بڑے بڑے بینر لگاتے ہیں، وہ رہبر کی حرمت کا بھی تو خیال کریں۔ اگر آپ کو رہبر سے محبت ہے تو ان کی عزت و تکریم کا بھی خیال رکھیں، اگر عزت کا خیال نہ رکھا تو غیرت ختم ہو جائے گی۔