21 رمضان کے موقع پر:
رسا نیوزایجنسی - امام علی علیہ السلام انیس رمضان سن 40 ہجری کی شب اپنی چھوٹی بیٹی ام کلثوم سلام اللہ علیھا کے گھر مہمان تھے، بی بی نے افطار پر آپ کے سامنے دودھ، نمک اورروٹی پیش کیا تو آپ نے فرمایا: میری لال کیا تم دیکھا ہے کہ تمھارے بابا نے ایک وقت میں دو نعمتیں کھائی ہوں ان میں سے کسی ایک کو اٹھا لو ، بی بی نے نمک اور روٹی اٹھانا چاہا تو اپ نے دودھ کا کاسہ بڑھا دیا اور نمک و روٹی سے افطار کیا، حضرت کے دسترخوان پر ایک سے زیادہ غذا دیگر لوگوں کا حق پائمال کرنے کے برابر تھا ۔
سید اشھد حسین نقوی
انیس رمضان سن چالیس ہجری کا دن تاریخ بشریت کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب خانہ خدا، مسجد کوفہ میں خدا کی برگزیدہ ترین ہستی کے سر پر وقت سحر ، دنیا کی حقیر ترین فرد ابن ملعجم نامی شخص نے ضربت لگائی، اس وقت اہل مسجد نے ندائے ہاتف غیبی سنی “تھدمت و اللہ ارکان اللہ ھدیٰ، و انطمست اعلام التّقیٰ، و انفصمت العروۃ الوثقیٰ، قُتل ابن عمّ المصطفیٰ، قُتل الوصیّ المجتبیٰ، قُتل علیّ المرتضیٰ، قَتَلہ اشقی الْاشقیاء” کہ “خدا کی قسم ارکان ھدایت منہدم ہوگئے، علمِ نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کر دیا گیا، نشانِ تقویٰ کو مٹا دیا گیا، عروۃ الوثقیٰ کو کاٹ ڈالا گیا، رسول خدا (ص) کے چچا زاد بھائی کو شھید کر دیا گیا، سید الاوصیاء علی المرتضی(ع) کو شھید کر دیا گیا، انہیں اشقی الاشقیاء نے شھید کیا ” ۔
مسجد میں موجود اصحاب، محبان اور دیگر نمازیوں نے جب اپنے غم کا اظہار کرنا چاہا تو آپ نے لوگوں سے فرمایا : “ھذا وعدنا اللہ و رسولہ” کہ یہ وہی کچھ ہے جس کا اللہ اور اسکے رسول (ص) نے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اورامام حسن مجتبی علیہ السلام سے نماز فجر تمام کرنے کو کہا، چاھنے والوں نے آپکو شدید زخمی حالت میں گھر پہنچایا ، گھر کے قریب پہنچ کر آپ نے اپنے اصحاب کو واپس لوٹ جانے کو کہا، تاکہ اھل حرم کے آہ ونالہ کی اوازیں نامحرموں تک نہ پہونچنے پائیں ۔
کافی مقدارمیں خون بہہ جانے اور پورے جسم مبارک میں زہر کی اثر نے آپ پرنقاہت طاری کردی، طبیب کی تشخیص نے اپ کو اخری وصیتوں کی درخواست کی ، حضرت نے علم امامت امام حسن مجتبی علیہ السلام کے حوالے کئے اور باقی اولاد کو انکے متعلقہ امور پر وصییتیں فرمائیں ، آپ نے فرمایا:
“اے میرے فرزندان حسن و حسین (ع)! میں آپ کو خوف خدا کی تلقین اور دنیا کی طلب سے منع کرتا ہوں”۔
پھر فرمایا:
“اے بیٹا حسن! میں تمہیں اس چیز کی وصیت کرتا ہوں جس کی مجھے رسول اللہ (ص) نے کی تھی اور وہ یہ کہ جب امت تم سے مخالفت پر آمادہ ہو جائے تو گوشہ نشینی اختیار کر لینا، آخرت کے واسطے گریہ و فغاں کرنا اور دنیا کو اپنا مقصود قرار نہ دینا اور نہ ہی اسکی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا، نماز کو اول وقت میں ادا کرنا اور زکوۃ کو بروقت اسکے مستحقین تک پہنچا دینا، مشتبہ امورپرخاموش ہوجانا اور غضب کے موقع پرعدل و میانہ روی سے کام لینا، اپنے ہمسایوں سے اچھا سلوک کرنا اور اور مہمانوں کی عزت کرنا ۔
مصیبت کے ستائے ہوئے لوگوں پر رحم کرنا، صلہ رحم کرنا اورغرباء و مساکین کی دلجوئی کرنا، ان کے ساتھ نشست وبرخواست رکھنا، تواضع و انکساری اختیار کرنا کہ افضل عبادت ہے، اپنی آرزوؤں اور امیدوں کو کم اور موت کو کثرت سے یاد رکھنا، میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ظاہر اور باطن دونوں طریقوں سے خدا سے ڈرتے رہنا، بغیر غور و فکر کے بات نہ کرنا اور کام میں جلدی نہ کرنا، البتہ کار آخرت میں عجلت اختیار کرنا اور دنیا کے معاملہ میں تاخیر اور صرف نظر کرنا، مقامات تہمت اور بد گمانیوں کی محافل سے بھی دوررہنا، کیونکہ برا ہمنشین اپنے ساتھی کو ضرورنقصان پہنچاتا ہے ”۔
پھر فرمایا،
“اے میرے فرزند! خدا کے لئے کام کرنا اور فحش و بیہودہ گوئی سے پرہیز کرنا اور اپنی زبان سے صرف اچھی چیزوں کا حکم دینا اور بری چیزوں سے منع کرنا، برادران دینی کے ساتھ خدا کی وجہ سے دوستی و برادری رکھنا اور اچھے شخص کے ساتھ اسکی اچھائی کی وجہ سے دوستی رکھنا اور فاسقوں کے ساتھ نرمی برتنا کہ وہ دین کو نقصان نہ پہنچائیں، تاہم انہیں دل میں دشمن سمجھنا اور اپنے کردار کو ان کے کردار سے الگ رکھنا، تاکہ تم ان جیسے نہ ہوجاؤ، گزر گاہ پر نہ بیٹھنا اور بیوقوفوں اور جہلا سے مت الجھنا، گزر اوقات میں میانہ روی اختیار کرنا اور اپنی عبادت میں بھی اعتدال رکھنا اور وہ عبادت انتخاب کرنا جس پرہمیشہ قائم رکھ سکو” ۔
مزید ارشاد فرمایا،
“کوئی غذا اس وقت تک نہ کھانا جب تک اس کھانے میں سے کچھ صدقہ نہ دے دو، تم پرروزہ رکھنا لازم ہے کہ بدن کی زکوۃ اور آتش جہنم کے لئے سپر ہے ، اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا اور اس سے ڈرتے رہنا کہ یاد خدا سے غافل نہ کر دے، دشمن سے پہلو تہی کرنا، ذکر خدا کی محفلوں میں ضرور جانا اوردعا زیادہ کیا کرنا” ۔
مذکورہ بالا وصیت نامہ، فصاحت و بلاغت کا ایک سمندر ہے جو بظاہر اپنی اولاد کو مخاطب کر کے ھم چاھنے والوں کیلئے حضرت نے فرمایا تاکہ ہم اس ضابطہ حیات کے تحت اپنی اپنی زندگی گزاریں، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بلاغت کے سمندر میں غوطہ ور ہوں اور حکمت و دانش کے وہ موتی چنیں جو ہمارے مولانے ہمارے لئے تحفتا چھوڑے ہیں۔
تبصرہ بھیجیں
برای مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
قوانین ملک و مذھب کے خالف اور قوم و اشخاص کی توہین پر مشتمل تبصرے نشر نہیں ہوں گے