28 July 2013 - 16:25
News ID: 5715
فونت
آیت ‌الله مکارم شیرازی:
رسا نیوزایجنسی - آیت ‌الله مکارم شیرازی نے کہا : شب قدر کی فضیلتوں سے بخوبی استفادہ کی تاکید کرتے ہوئے کہا: امام علی(ع) تاریخ اسلام کے بے مثال حاکم ہیں ۔
آيت ‌الله مکارم شيرازي

 

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مراجع تقلید قم میں سے حضرت آیت ‌الله ناصر مکارم‌ شیرازی نے انسویں رمضان المبارک کو اپنی سلسلہ وار تفسیر قران کریم کی نشست میں جو حرم کریمہ اهل بیت حضرت معصومہ قم(ع) شبستان امام خمینی(رہ) میں زائرین و مجاورین حرم کی شرکت میں منعقد ہوئی، تنہا شیعہ مذھب کو ائمہ اور انبیاء الھی کے لئے عصمت کا قائل جانا ۔


آیت ‌الله مکارم شیرازی نے یہ کہتے ہوئے کہ شیعہ ھر حالت میں انبیاء الھی اور ائمہ علیھم السلام کے لئے عصمت کے قائل ہیں کہا: دیگر مذاھب اس حد تک اور حتی انبیاء الھی کے عصمت کے قائل نہیں ہیں ۔


انہوں نے حدیث ثقلین کے ائینہ میں قران و عترت میں جدائی گمراہی کا سبب جانا اور کہا: جب مرسل اعظم(ص) نے مسلمانوں کو قران کی ہی طرح اهل بیت اطھار(ع) کی پیروری کا حکم دیا ہے تو اس مطلب یہ ہے کہ اھل بیت اطھار(ع) کو بھی قران کا مرتبہ حاصل ہے، اپ بھی قران کی طرح خطاوں سے منزہ ہیں، رسول ھرگز گناہگار کی اطاعت کا حکم نہیں دے سکتا کیوں کہ اس صورت میں امت کے بہکنے کا اندیشہ پایا جاتا ہے ۔


اس مرجع تقلید نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عصمت کا مطلب یہ نہیں کہ عقلا گناہ محال ہے کہا : ائمہ معصومین معرفت کے اس درجہ پر فائز ہیں کہ وہ گناہوں کے حقیقی چہرہ اور باطن کو دیکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر ھرگز گناہ انجام نہیں دیتے جو ان کے لئے افتخار اور امتیاز کا پہلو ہے  ۔


حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ مولائے کائنات کی حکومت میں سارے لوگ برابر تھے اور بیت المال کی تقسیم میں کسی کو بھی کسی پر فوقیت یا امتیاز حاصل نہیں تھی کہا: اشعث بن غیس من جملہ ان افراد میں سے ہے جو حضرت محمد مصطفی(ص) کی حیات میں بظاھر مسلمان ہوا، مگر باطن میں منافق تھا اور اپ کی رحلت کے بعد مرتد ہوگیا اور ایک مدت بعد ابوبکر کے پاس پہونچ کر ظاھری توبہ کر لیا اور حضرت علی(ع) کے زمانہ خلافت میں منافق کی صورت میں اپ کے انصار میں شامل رہا ۔


انہوں نے مزید کہا: اشعث بن غیس کا جب ایک مسلمان سے اختلاف ہو گیا تو مولائے کائنات علی(ع) کی خدمت میں لذیذ حلوے کا تحفہ لیکر پہونچا، حضرت نے اس سے کہا کہ تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے ، کیا تو مجھے دھوکہ دے سکتا ہے ، اور اس دین خدا سے ہمیں منحرف کرسکتا ہے ، حضرت نے دیگر القاب و الفاظ سے بھی اسے نوازا اور کہا: « اگر ایک چیونٹی پر ظلم کے بدلے کہ اس کے منھ سے اسکا لقمہ چھین لوں، پوری دنیا بھی ہمیں دے دی جائے تو خدا کی قسم اس کام کو ھرگز نہ کروں » ۔


انہوں نے شب قدر کی اھمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: خدا ہمیں شب قدر کے فضائل کے بخوبی ادراک کی توفیق عطا کرے اور اس شب رحمت الھی مسلمانوں کے شامل حال ہو ۔


شب قدر کو شهادت حضرت علی(ع) کے ہمزمان ہونا گناہوں کی بخشش کا بہترین موقع ہے کہا: ہم اپنی گناہوں کی بخشش میں حضرت علی(ع) کو وسیلہ قرار دیں ۔


اس مرجع تقلید نے یہ کہتے ہوئے کہ خدا کی رحمت بے انتہا ہے کہا: ان شبوں میں ھر انسان اپنی توانائی اور اپنے ظرف کے بقدر خدا کی رحمتوں سے استفادہ کرسکتا ہے  ۔


انہوں نے اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے مشکلات کے حل کی دعا اس شب کے بہترین اعمال میں شمار کرتے ہوئے توبہ ، قران اور احادیث اهل‌بیت(ع) پر عمل کی تاکید کی ۔


ایت اللہ مکارم شیرازی نے کمیل بن زیاد سے خطاب میں مولائے کائنات حضرت علی‌(ع) کے بیان کی جانب اشارہ کیا اور کہا: حضرت علی‌(ع) اس بیان میں انسانوں کو تین گروہ میں تقسیم کیا ہے ان میں سے پہلا گروہ علمائے ربانی اور دانشوروں کا ہے جن کا پروردگار کے یہاں خاص مقام ہے ۔ 


انہوں نے کہا: دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو علمائے کرام کی بزم میں حاضر ہوکر ان کے ہاتھوں ہدایت پاتے ہیں، یہ لوگ بھی نیک لوگوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور مستحکم تکیہ گاہ کے حامل ہیں ۔


انہوں نے تیسرے گروہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: تیسرا گروہ نادانوں کا گروہ ہے ، جو نہ عالم ہیں اور نہ ہی علماء کے ساتھ ان کی نشست و برخواست ہے ، ایسے افراد نہ مناسب مقام کے مالک ہیں اور نہ ہی مستحکم تکیہ گاہ ہے حامل ہیں ۔


انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ بعض افراد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کیوں ایران میں ڈیش پر پابندی ہے ان کے جواب میں کہا: % 90 ڈیش کے پروگرام فاسد اور گمراہ کن پروگرام ہیں ۔


انہوں نے شیعوں کے پہلے امام حضرت علی(ع) کے طرز زندگی کی جانب اشارہ کیا اور کہا: حضرت علی(ع) قدرت کے بالاترین مرتبہ ہونے کے باوجود سادی زندگی بسر کرتے تھے ، اپ یتیموں اور محروموں حامی تھے ، پوری تاریخ میں کسی بھی حاکم نے اپ کی طرح عوام سے برتاو نہیں کیا ۔


قران کریم کے اس نامور مفسر نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو شیعوں کے لئے باعث فخر جانا اورکہا: حضرت نے ہمیں سادہ زیستی، مہربانی، خالصانہ عبادت، ظالم سے مظلوم کے حق کو لینا، یتیموں کی سرپرستی اور شجاعت کا درس دیا ۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬