تحریر: عرفان علی
’’خواص کے نام ایک کھلا خط ‘‘ میں یہ ناچیز پاکستان کے بزعم خود فعال تنظیمی شیعوں کے تین گروہوں کا تذکرہ کرچکا تھا۔ مودبانہ گزارش یہ بھی کی تھی کہ الفاظ کی جنگ کی توپوں کا رخ دشمنوں کی جانب موڑیں نہ کہ ایک دوسرے پر گرجتے برستے رہیں۔ لیکن صورتحال میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوئی۔ رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ کام سبھی ایک جیسے ہی انجام دیں گے، لیکن اپنے کام پر واہ واہ کریں گے اور دوسرا جب ویسا ہی کوئی کارنامہ انجام دے، تب بھی اس کو ایک تو یہ کہ سراہیں گے نہیں بلکہ اس کے برعکس اس کے کام کی نیت پر شک کریں گے۔ یہ لوگ جنہیں ایک دوسرے کے لئے ریشم کی طرح نرم ہونا چاہیے، ان کے دل ایک دوسرے کے خلاف فولاد سے زیادہ سخت ہیں اور دعویٰ یہ کہ سبھی ایک امت ہیں۔ اس تحریر کا پس منظر یہ ہے کہ ایک محترم دوست نے ایک کالم لکھا اور اس میں ایک عالم دین اور ان کی تنظیم کی مدح سرائی کی۔ ہمارے انہی محترم دوست نے انہی عالم دین کی بھوک ہڑتال کے وقت بھی بعض افراد پر طنز کیا تھا۔ میں نے اس تازہ ترین کالم پر اپنی رائے دی کہ 18 نومبر 2015ء کو ایک اور شیعہ تنظیم کے ایک عالم دین نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے رابطے کرکے زائرین کے مسائل کے حل پر زور دیا تھا اور وقتی طور پر زائرین کی آمد و رفت شروع بھی ہوئی تھی۔ میری رائے یہ ہے کہ اب جو عالم دین میدان میں اترے ہیں، ان کا یہ نیک عمل بھی سراہے جانے کے قابل ہے، لیکن جو تنظیمیں پہلے یہ کام کرچکی ہیں، ان کی کوششوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ نیک کام کوئی بھی کرے، تعریف میں کنجوسی نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ایران میں مقیم بعض مولوی حضرات کو میری یہ بات بری لگی اور انہوں نے اپنی رائے میں اس کا اظہار بھی کیا اور ان کے مطابق انہیں مجہول اور بیان باز کرداروں کو نمایاں کرنے کا مطالبہ بہت عجیب سا لگا ہے۔
آئیں آج بیان باز کرداروں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ میں صرف دو مثالیں پیش کروں گا۔ یہ حال ہی کی ہیں۔ ایک قابل احترام عالم دین نے بھوک ہڑتال کی، مذاکرات کئے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت نے ان کو مطالبات کی منظوری کی یقین دہانی کروائی۔ پنجاب حکومت سے فالو اپ مذاکرات بھی ہوئے۔ یہ سب ہونے کے بعد اسی عالم دین کی تنظیم کے ایک متحرک و فعال مقامی رہنما کو پنجاب پولیس نے بغیر کسی وارنٹ کے یا ثبوت کے گرفتار کرلیا۔ پنجاب بھر میں چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری تھا اور ہے۔ پنجاب حکومت نے ایک ضابطہ جاری کیا ہے، جس کے مطابق محرم کی مجالس و محافل چاردیواری کے اندر کرنے کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کی آواز باہر نہ جائے، سکیورٹی کی ذمے داری مجلس کے میزبان کی اور اگر محلے کے کسی بھی فرد کو اعتراض ہو تو وہ مجلس نہیں ہوسکے گی اور حکومت پر تنقید بھی نہیں کی جاسکتی اور یہ کہ حکومت اگر اس پروگرام کو منعقد کرنے کی اجازت نہ دے تو بھی وہ پروگرام منعقد نہیں ہو پائے گا۔ یہ ایک قسم کا حلف نامہ ہے جو پروفارما کی شکل میں ہے اور اس کے نیچے میزبان مجلس نے دستخط کرنے ہوں گے۔ یہ سب کچھ آپ کی پسندیدہ تنظیم اور پسندیدہ عالم دین کی بھوک ہڑتال اور ’’کامیاب‘‘ مذاکرات کے بعد ہوا ہے۔ کیا آپ کی نظر میں یہ محترم عالم دین اور ان کی جماعت مجہول اور بیان باز کردار ہے؟ کیا یہ مذاکرات و ملاقاتیں فوٹو سیشن تھیں اور بھوک ہڑتال برائے میڈیا پروجیکشن تھیں؟ کیا وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کے ہاتھوں یہ قیادت بے وقوف بن گئی۔؟
آئیں دوسری مثال ملاحظہ فرمائیں، اسی ماہ ستمبر کے آغاز میں اسی تنظیم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا سے ملاقات کی۔ وہاں بھی بڑے ’’کامیاب‘‘ مذاکرات ہوئے، کیونکہ حکومت نے یقین دہانی کروا دی کہ مسائل سمجھو کہ حل! اب اسی ماہ ستمبر کے آخری عشرے کی بات ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس نے محرم کی سکیورٹی کے بارے میں اجلاس بلایا اور وہاں بدنام زمانہ تکفیری دہشت گرد گروہ کے بدنام زمانہ مولوی کو مدعو کیا اور اس کے خطاب کو سبھی نے سنا۔ آپ کے مذاکرات اور کامیاب ملاقاتوں کی خبریں جمع کریں تو ایسا لگے گا کہ شیعہ مسلمانوں کے سارے مسائل حل ہوچکے ہیں۔ کیا ہمارے محترم دوست جو اس تنظیم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں، انہیں آپ کی وضع کردہ تشریح کے مطابق مجہول و بیان باز کردار کہا جانا درست ہوگا؟ اگر خیبر پختونخوا کی حکومت کی نظر میں یا ان کی حکمران جماعت کے قائد کی نظر میں آپ کی کوئی حیثیت یا اہمیت ہوتی تو ہرگز کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کے بدنام زمانہ مولوی کو سرکاری پروٹوکول میں مدعو نہ کیا جاتا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی (ہوم) پر بھی کالعدم تکفیری گروہ کے فرقہ پرست مولویوں کو مدعو کیا گیا۔
اسی طرح تفتان بارڈر پر زائرین کو درپیش مسائل ہیں۔ یہ پچھلے برس بھی تھے اور تب کسی دوسری تنظیم، کسی دوسرے عالم دین نے حکومت سے روابط کے ذریعے وقتی طور پر یہ مسئلہ حل کروایا تھا۔ اس مرتبہ بھی ایک تنظیم کے قائد عالم دین نے حکومتی شخصیات بشمول وزیراعظم و وزیر داخلہ سبھی کو خطوط لکھے تھے کہ یہ مسئلہ حل کیا جائے۔ اگر میرا موقف یہ ہے کہ ان سبھی کوششوں کو سراہا جائے تو اس میں غلط کیا ہے۔ کراچی ہی کی مثال لیں، ایک عالم دین نے ولایت کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس کے بعد 24 ستمبر کو ایک اور تنظیم نے تحفظ عزا کانفرنس کا انعقاد کیا۔ ولایت کانفرنس میں ایک اور مرتبہ یہ کہا گیا کہ سنی شیعہ مل کر تکفیریوں کو شکست دیں گے اور تحفظ عزا کانفرنس میں ایک اور مرتبہ حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ اگر عزاداری میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور عزاداروں کے خلاف درج ایف آئی آر واپس نہ لی گئیں تو احتجاج ہوگا۔ اس مرتبہ جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا گیا۔ کیا ان دونوں تنظیموں کے قائدین کے بیانات میں کچھ نیا بھی ہے؟ کیا ان دونوں تنظیموں کے پاس بھوک ہڑتال، مظاہرے، ریلیاں، کانفرنس، دھرنا وغیرہ کے علاوہ بھی کوئی اور چیز ہے، جس کی بنیاد پر میرے جیسا کوئی یہ کہہ سکے کہ نہیں جناب یہ جو قائد ہیں اور ان کی تنظیم ہے، یہ کچھ مختلف ہے؟! کیا مختلف ہے؟ مذاکرات، ملاقات، یقین دہانیاں، زندہ باد، مردہ باد کے نعروں سمیت کوئی بھی تو ایسی چیز نہیں کہ جس پر کہا جاسکے کہ دونوں میں فرق ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں ایک عالم دین گرفتار کئے گئے، قیدی بنائے گئے، کس جرم کی بنیاد پر؟ کیا کوئی ذاتی مسئلہ یا پارٹی کا مسئلہ تھا۔؟
اسی عالم دین نے اسلام آباد میں پاکستان بھر سے شیعہ علماء کو جمع کرکے کانفرنس کی تھی۔ کیا فوٹو سیشن، بیان بازی کہہ کر مسترد کر دیں؟ اگر آپ کا پسندیدہ کوئی عالم اجتماع منعقد کرے تو تعریفوں کے پل اور دوسرا کوئی کرے تو یا طنز یا پھر میڈیا بلیک آؤٹ، ایسا کیوں ہے؟ پھر آپ کے دھرنوں کے بارے میں وہ کوئی منفی رائے دیں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ اور ایسی منفی رائے کی بھی میں مذمت کرتا ہوں۔ میری تحریروں میں ایک تنظیم کی نسبتاً زیادہ فعالیت کی وجہ سے اس کی طرف معمولی سا جھکاؤ سبھی محسوس کرتے آئے ہیں اور آج کی یہ تحریر اس کے برعکس ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ معیار کارکردگی ہے۔ تفتان بارڈر کا مسئلہ ہو یا دیگر جگہوں کے مسائل، حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں ہوں یا مذاکرات، دونوں تنظیموں کے حامی یاد رکھیں کہ دونوں طرف کے قائدین یہ خدمات انجام دیتے آئے ہیں، اور یہ اگر بیان بازی ہے تو بھی اس کا ارتکاب دونوں طرف سے ہوا ہے اور اگر نیکی ہے تو بھی دونوں طرف سے ہوئی ہے۔ مولائے کائنات کا یہ قول کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے، اس کے مطابق تفتان کے بارڈر پر زائرین کے مسائل کے حل کے لئے اگر کوئی کچھ اچھا کہہ رہا ہے تو پھر ’’کون‘‘ کہہ رہا ہے؟ کا اطلاق نہ کریں۔
قصہ مختصر یہ کہ پاکستان کے شیعوں کے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔ آپ نے جو بعض مرحلوں میں وقتی کامیابی حاصل کی، ان پر بھی یہ ناچیز لکھتا رہا ہے۔ ملاقاتوں، مذاکراتوں میں یقین دہانیوں کے لولی پاپ اس مرتبہ بھی آپ کو مل چکے ہیں، جب دوسروں کو یہ لولی پاپ دیئے جاتے ہیں تو آپ اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور اپنے حصے کے لولی پاپ کو کامیابی کہتے ہیں۔ جبکہ صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی دو مثالیں آپ کی ناکامی کا مجسم ثبوت ہیں۔ چلیں تازہ ترین تیسری مثال بھی آگئی کہ سندھ کے ضلع خیرپور میں محرم سکیورٹی اجلاس میں بھی کالعدم تکفیری دہشت گروہ کے افراد کو مدعو کیا گیا حالانکہ ایک تنظیم کے صوبائی سیکرٹری جنرل نے وزیراعلٰی سندھ سے ملاقات میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا اور وزیراعلٰی نے بھی اس ضمن میں یقین دہانی کرائی تھی۔ میرا موقف یہ ہے کہ جب تک یہ دونوں تنظیمیں مشترکہ مسائل پر مشترکہ موقف اور وسعت قلبی کا عملی مظاہرہ نہیں کریں گی، تب تک پاکستان کے شیعہ مسلمانوں کے مسائل کا حل ہونا ممکن نہیں۔ آخر میں یہ واضح کر دوں کہ دنیا میں صرف دو طرح کے لوگ نہیں ہوتے، کچھ میری طرح کے بھی ہوتے ہیں جنہیں چاپلوسی نہیں آتی!۔/۹۸۸/ن۹۴۰