تحریر: ثاقب اکبر
دنیا واقعاً بدل رہی ہے۔ وہ لوگ جو کہتے تھے کہ پاکستان کو برطانوی سامراج نے اس لئے تشکیل دیا تاکہ اشتراکی روس کو آگے بڑھنے سے روکا جائے، آج ان کے نظریئے کو درست کہنے والے دانتوں میں انگلی دبائے دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا کہ روس کا فوجی دستہ مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لینے کے لئے پاکستان پہنچ گیا۔ آج جب ہم یہ مضمون سپرد قلم کر رہے ہیں تو پاکستان اور روس کے فوجی دستے مشترکہ مشقوں کا آغاز کرچکے ہیں۔ یہ مشقیں دو ہفتوں تک جاری رہیں گی۔ یہ اس حالت میں ہے جب کہ بھارت نے ان مشقوں کو روکنے کے لئے روس پر دباؤ بھی ڈالا۔ وہی روس جو ماضی میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا اتحادی رہا ہے اور اب بھی فوجی اور اقتصادی لحاظ سے دونوں کے درمیان تعلقات قائم ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں نے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا ہے اور ہمیں یاد دلایا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں روسی فوجوں کے افغانستان پر قبضے کو چھڑانے کے لئے طویل جنگ ہوئی اور افغانستان کو روسی تسلط سے آزاد کرا لیا گیا، اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اتحادی امریکہ اور نیٹو ممالک تھے۔ اس جنگ کے بعد پاکستان اور روس کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل تھی اور تعلقات بہت خراب تھے، اس جنگ کی وجہ سے روس کا زیادہ جھکاؤ بھارت کی طرف ہوگیا۔
آج سے شروع ہونے والی ان مشترکہ فوجی مشقوں کا نام فرینڈشپ 2016ء رکھا گیا ہے۔ یہ نام علامتی طور پر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اشارہ کر رہا ہے کہ 2016ء سے روس اور پاکستان کے مابین ایک نئی فرینڈشپ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ یہ لفظ سلواکیہ زبان کے لفظ دروزھبا کا انگریزی ترجمہ ہے۔ دوستی کے اس نئے سفر پر ہم کہہ سکتے ہیں:
ع دن بدلتے ہیں تو حالات بدل جاتے ہیں
گذشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر کے اُڑی سیکٹر میں بھارتی فوج کے کیمپ پر حملہ کے بعد انڈین میڈیا میں یہ خبریں زور پکڑنا شروع ہوگئی تھیں کہ روس نے پاکستانی فوج کے ساتھ مشقوں کو منسوخ کر دیا ہے۔ تاہم پھر روسی حکام نے ان رپورٹس کی تردید کر دی۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق یہ مشقیں اس پس منظر میں غیر معمولی پیشرفت ہیں۔ ان مشقوں کی بنیاد گذشتہ سال پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل کے دورہ ماسکو میں رکھی گئی تھی، جس میں انھوں نے روسی حکام کے ساتھ دفاعی تعلقات کے حوالے سے بنیادی امور پر بات چیت کی تھی۔ اس سے پہلے روسی وزیر دفاع نے 20 نومبر 2014ء کو پاکستان کا دورہ کیا تھا، جس میں دفاعی تعاون کا تاریخی معاہدہ کیا گیا تھا، جس کے تحت روس نے پاکستان کو 20 جدید ترین ایم آئی 33 ہیلی کاپٹر فراہم کئے۔ پاکستان نے جے ایف تھنڈر کے انجن بھی روس سے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان روس کے جدید ترین لڑاکا طیارے سخوئی خریدنے کے لئے بھی بات چیت کر رہا ہے۔ اس پیشرفت کی کچھ مزید تفصیلات بھی ہیں۔ یہ سلسلہ 2014ء کے آخر میں افغانستان سے بیشتر امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد نسبتاً تیز رفتاری سے آگے بڑھا ہے۔
اس دوران میں پاکستان شنگھائی پیکٹ کا باقاعدہ ممبر بھی بن چکا ہے۔ اگرچہ اس پیکٹ میں بھارت بھی شامل ہوچکا ہے، تاہم چین اور روس اس کے دو اہم ترین اور بنیادی رکن ہیں، جو مستقبل میں عالمی سطح پر مشترکہ کردار ادا کرنے کے حوالے سے ایک ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں شام میں دونوں ممالک کی قربت نسبتاً زیادہ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ دونوں ممالک بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں شام میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عالمی حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ روس کو خطے میں یہ کردار ادا کرنے سے روکنے کے لئے سعودی عرب نے خاصی کوششیں کی ہیں لیکن انھیں روسی تائید حاصل نہ ہوسکی۔ امریکہ جس انداز سے بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے اور اسے چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہا ہے اور امریکی مدبرین کے نزدیک چین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے ان کے پاس بھارت کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی نہیں ہے، اس صورت حال نے چین کو زیادہ محتاط طریقے سے پیشرفت پر آمادہ کیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ سی پیک معاہدے کی بھارت نے جس انداز میں مخالفت کی ہے اور چین پر اسے ختم کرنے کے لئے اس پر دباؤ ڈالا ہے، چین نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو اب روس کی طرف سے پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کی بھارتی مخالفت کا مسترد کیا جانا اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ یہ تمام معاملات ظاہر کر رہے ہیں کہ دنیا تیز رفتاری سے تبدیل ہو رہی ہے۔
ایک پاکستانی دفاعی تجزیہ کار کے نزدیک یہ صورت حال بھارت کے لئے ایک دھچکا ہے۔ پاک روس فوجی مشقوں کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ان مشقوں کو دفاعی تعاون سے زیادہ عالمی صورت حال کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ واحد سپر پاور سے ایک مرتبہ پھر دنیا کئی عالمی طاقتوں میں بٹ رہی ہے، جس میں روس کا خطے اور عالمی سطح پر اہم کردار ہے۔ انھوں نے کہا کہ مشترکہ فوجی مشقیں بڑی خبر ہے۔ تعلقات میں بہتری بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ انھوں نے کہا بھارت اور امریکہ مل کر خطے میں طاقت کا توازن قائم کرنا چاہ رہے تھے۔ نئی تبدیلی سے بھارت اور امریکہ دونوں کو تکلیف ہوگی۔ بحر ہند پر تسلط کا ان کا خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ البتہ یہ بات نظرانداز نہیں کی جانا چاہیے کہ نئی پیشرفت پر اسرائیل کو بھی یقیناً تشویش لاحق ہوگی، کیونکہ بھارت، اسرائیل اور امریکہ تمام تزویراتی امور میں اس خطے میں مشترکہ حکمت عملی پر گامزن ہیں۔ ایسے میں یہ خبر بھی اہم ہے کہ ایران نے سی پیک میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان ایران سے بجلی خریدنے کے لئے نیا معاہدہ کرنے جا رہا ہے۔ ون روڈ ون بیلٹ کا چینی نظریہ اسی کا متقاضی ہے۔ عالمی حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں پاکستان کو خود بخود یا جبری طور پر تبدیلی کی راہ پر ڈال رہی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ امر تعجب خیز بھی ہے اور باعث اطمینان بھی کہ روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کے حوالے سے پاکستان میں جس قدر ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے، یہ تقریباً اسی درجے کی ہے جس قدر تمام سیاسی پارٹیوں کے مابین مشرقی سرحدوں کے دفاع کے حوالے سے نظر آرہی ہے۔ شاید اشتراکی جسے جبر تاریخ کہتے ہیں، ہم اسے قدرت کی کارفرمائی کے کرشمے کہہ سکتے ہیں۔/۹۸۸