رسا نیوز ایجنسی – عالمی شعبہ : کچھ دنوں قبل گروزنی میں «دائره اهل سنت و جماعت» کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا، اور اس کانفرنس میں شریک تمام اھل سنت کی اکثریت نے وھابیت کو اھل سنت کے دائرہ سے خارج کردیا، سعودیہ عربیہ جو خود کو اھل سنت کا اصلی مرکز و مرجع سمجھتا ہے اسے اس کانفرنس میں دعوت نہیں دی گئی، سعودی مفتیوں نے اس کانفرنس میں نہ بلائے جانے کے عکس العمل میں گروزنی کانفرنس میں شریک افراد کو امسال حج میں شریک ہونے سے روک دیا، ہم نے مسلم علماء کونسل کے لبنان کے سربراہ شیخ ماهر حمود سے ہونے والی گفتگو میں اس کانفرنس کی مختلف جہتوں کی تشریح کی گئی ہے ، اگے آنے والا متن اس گفتگو کی تفصیل ہے :
رسا: گروزنی کانفرنس کے بعد الازھر اور سعودی علماء کی بڑی کمیٹیوں کے تعلقات میں بہت زیادہ کشیدگی آئی ہے ۔ سب سے پہلے اس رنجش کے سلسلے میں آپ کی نظر کیا ہے ، اور دوسرے یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کسے اهل سنت معاشرہ کا مرجع مطلق بتایا جاسکتا ہے ۔
ماهر حمود: سعودیہ عربیہ کے خطا کار ہونے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، آل سعود نے اسکولوں کی ایجوکیشنل بکس ، مسجدوں اور نشستوں کی منبروں اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنی تمام توانائی صرف کرد تاکہ کی اهل سنت و جماعت کو وهابیت و سلفیت سے مخصوص اور دیگر اهل سنت فرقے اهل سنت معاشرے سے باہر ثابت کرسکے کہ یقینا یہ بات نہایت خطرناک ہے ، اور وہ اس سلسلے میں کبھی کبھی صاف و شفاف اور کبھی اشارۃ و کنایۃ اپنے موقف کا اعلان کیا کرتے رہے ہیں ، کہ یہ اهل سنت اماموں شافعی، مالکی و حنبلی کے ساتھ ان کا اہانت آمیز برتاو شمار کیا جاتا ہے ۔
گروزنی کانفرنس در حقیقت سعودی علماء کے مد مقابل قیام کے لئے منعقد کی گئی مگر میرے لحاظ سے اس کانفرنس کا انعقاد خود اسٹراٹیجک حوالے سے بہت بڑی خطا تھی ، اگر چہ خود وہابیت اور سلفیت کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں، اور سب پر یہ بات عیاں ہے کہ سعودی، دھشت گردوں کے مالی منابع ، ان کے اسلحے اور تکفیری افکار کے تامین کرنے کا اہم مرکز ہے لھذا انہیں اتنی آسانی کے ساتھ اھل سنت کے درمیان سے نہیں نکالا جاسکتا، مگر پھر بھی تاکید کرتا چلوں کہ ان لوگوں یعنی وھابیوں نے حقیقتوں کا انکار کیا اور واقعیتوں کو کچل کر رکھ دیا ، انہوں نے تکفیری گروہوں کو بہانے اور مواقع فراہم کئے ، مگر یہاں پر اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ھرگز ایک غلط ٹیکنیک کے ذریعہ کسی غلط بات کا مقابلہ نہ کیا جائے ، مجھے یہ باتیں قبول نہیں ہے ، کیوں کہ میں معتقد ہوں کہ شیعہ و سنی اختلافات یا خود اھل سنت مسائل کا کوئی بھی جواب علمی بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے اور مفید علمی راہوں کے ذریعہ ، نیز ایک دوسرے کا احترام بھی ملحوظ خاطر رہے ۔
اس وقت سبھی غلطی پر ہیں ، کسی نے بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ عالم اسلام کے مسائل کا حل و فصل نہیں کیا ، فلسطین کہ جو عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ ہے اس کی فراموشی میں اسلام کی نمایاں ، ممتاز اور مذھبی شخصیتوں نے کا بھی کردار ہے ، حتی انہوں نے حکومت اسلامی کی دستیابی اور یا اسے احکام الھی کی بنیادوں پر ادارہ کرنے میں بھی کوتاہی برتی ، لھذا مسلمانوں سے اس بات کی توقع ہے کہ اس تعطل سے نکلنے کا مناسب راستہ تلاش کریں ۔/۹۸۸/ن۹۳۰/ک۶۶۶