رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مفسر عصر قران کریم حضرت آیت الله جوادی آملی نے اپنی ھفتہ وار درس اخلاق کی نشست میں کہ جو سیکڑوں طلاب و افاضل حوزہ علیہ قم کی شرکت میں شھر مقدس قم منعقد ہوا ، شھادت حضرت امام حسین علیہ السلام کی تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: یہ جملہ «أَعْظَمَ اللَّهُ أُجُورَنَا [و اجوركم] بِمُصَابِنَا بِالْحُسَيْنِ(عَلَيْهِ السَّلَام) وَ جَعَلَنَا وَ إِيَّاكُمْ مِنَ الطَّالِبِينَ بِثَأْرِهِ(عليه الصلاة و عَلَيْهِ السَّلَام)» محرم میں ہمارا نارہ دو حصوں پر مشتمل ہے ، ایک : یہ کہ ہم مصیبت زدہ ہیں اور سوگوار ، ہمارا اجر پروردگار کے اختیار میں اور خداوند متعال تمام عزاداروں کو اس مصیبت پر اجر عظیم عطا کرے ، «أَعْظَمَ اللَّهُ أُجُورَنَا [و اجوركم] بِمُصَابِنَا بِالْحُسَيْنِ(عَلَيْهِ السَّلَام)» نہ فقط اجر عطا کرے بلکہ اہم اور عظیم اجر عطا کرے ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمارا مشھور و معروف نارہ ظالمین سے حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کا خوں بہا لینا ہے کہا: یہ جملہ «وَ جَعَلَنَا وَ إِيَّاكُمْ مِنَ الطَّالِبِينَ بِثَأْرِهِ(عليه الصلاة و عَلَيْهِ السَّلَام)» یعنی یہ کہ پروردگار ہمیں خوں بہائے حضرت امام حسین علیہ السلام لینے کی توفیق نصیب کرے کہ ہم ظالمین سے اس خوں بہا کو لے سکیں، یہ ہم شیعوں کی دعا اور مرسوم نارہ ہے ۔
آیت الله جوادی آملی نے مزید کہا: محرم کا دوسرا نارہ یہ ہے کہ عاشور کو ھمیشہ زندہ اور باقی رکھیں ۔
حوزه علمیہ قم میں درس خارج فقہ و اصول کے استاد نے یہ کہتے ہوئے کہ خداوند متعال سے ہماری دعا ہے کہ ہمیں خوں بہائے حضرت امام حسین علیہ السلام لینے کی توفیق دے کہا: پروردگار نے قران کریم میں فرمایا کہ جو بھی مظلومانہ مارا جائے ہم اس کے اولیاء کو قصاص کا حق دیتے ہیں ، ہم حسين بن علي علیھما السلام کے فرزند ہیں ، دشمنوں نے میرے باپ کو شھید کردیا لھذا ہمیں حق حاصل ہے کہ آپ کا خون بہا لیں ۔
انہوں نے کہا: ہم کس طرح حسين بن علي علیھما السلام کے فرزند ہیں ؟ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اسلام (عليه و علي آله آلاف التحيّة والثناء) نے اپنی حدیث میں ایک بات کا اعلان کیا کہ ہم تمہیں اپنا فرزند بنانے کو تیار ہیں لھذا تم سب ہمارے فرزند بن جاو «أنا و علي ابوا هذه الامة ، میں اور علی اس امت کا باپ ہوں» یہ عمومی اعلان ہے ۔ اور ھر عصر میں یہ نارہ موجود ہے ، چوں کہ حسين بن علي علیھما السلام نے بھی فرمایا کہ تم سب ہمارے فرزند بن جاو ، ہم بھی آپ کے شیعہ ہیں لھذا ہم سب آپ کے فرزند ہوگئے ، اور ان دشمنوں نے ہمارے باپ کو شھید کیا ہے لھذا قیام قیامت تک ہمیں اس خوں بہا کو لینے کا حق ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے بیان کیا: جس طرح ہم ان شخصیتوں کے فرزند ہیں ، ظالمین اور غاصبین ، صھیونیت اور عالمی سامراجیت بھی ان غاصبوں اور ظالموں کے فرزند ہیں ، یہ نارہ فقط ثواب کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ درس جھاد اور شھادت ہے ، لھذا ایران و عراق جنگ میں آٹھ سال تک صدام حسین سے لڑنے والے مجاھدین اور یا صھیونیوں و آل سعود سے مقابلہ کرنے والے درحقیقت حسین بن علی علیھما السلام کا خوں بہا لے رہے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا: یہ ہمارا مشھور نارہ ہے ، کیوں ہم سے کہا گیا ہے کہ ان دنوں جب جس ایک دوسرے سے ملیں تو اس جملہ کو کہیں «أَعْظَمَ اللَّهُ أُجُورَنَا [و اجوركم] بِمُصَابِنَا بِالْحُسَيْنِ(عَلَيْهِ السَّلَام) وَ جَعَلَنَا وَ إِيَّاكُمْ مِنَ الطَّالِبِينَ بِثَأْرِهِ(عليه الصلاة و عَلَيْهِ السَّلَام)» محرم میں ہمارا نارہ دو حصوں پر مشتمل ہے ، ایک : یہ کہ ہم مصیبت زدہ ہیں اور سوگوار ، ہمارا اجر پروردگار کے اختیار میں اور خداوند متعال تمام عزاداروں کو اس مصیبت پر اجر عظیم عطا کرے ، «أَعْظَمَ اللَّهُ أُجُورَنَا [و اجوركم] بِمُصَابِنَا بِالْحُسَيْنِ(عَلَيْهِ السَّلَام) وَ جَعَلَنَا وَ إِيَّاكُمْ مِنَ الطَّالِبِينَ بِثَأْرِهِ(عليه الصلاة و عَلَيْهِ السَّلَام) » پروردگار ہمیں خوں بہائے حضرت امام حسین علیہ السلام لینے کی توفیق نصیب کرے کہ ہم ظالمین سے اس خوں بہا کو لے سکیں، لھذا تحریک کربلا اور سید الشھداء علیہ السلام کی شھادت ھمیشہ کے لئے ہمارے درس اور پیغام کی حامل ہے ۔
انہوں نے عشرہ محرم کی مجلسوں کی جانب اشارہ کیا اور کہا: ريّان بن شبيب (رہ) حضرت امام رضا (سلام الله عليه) کی خدمت میں پہونچے آپ نے پوچھا کہ غمگین ہیں تو حضرت نے فرمایا کہ آج پہلی محرم ہے ، حضرت سید الشھداء علیہ السلام پر آنسو بہانا بہت ثواب کا حامل ہے ، اور پھر حضرت نے ريّان بن شبيب (رہ) کو بہت سارے احکامات دئے ۔
مفسر عصر قران کریم نے بیان کیا : امام (سلام الله عليه) نے فرمایا کہ يابن شبيب! جب بھی حضرت حسين بن علي علیھما السلام اور شهدائے كربلا کی یاد آئے تو حضرت حسين بن علي علیھما السلام کو خطاب کر کے کہو «يا ليتني كنت معكم فأفوض معكم فوزا عظيما» جب بھی حضرت حسين بن علي علیھما السلام کی یاد آئے اس «يا ليتني» کو کہو ۔
انہوں نے کہا: اس کا کیا مطلب ؟ جب ہم کربلا میں نہ تھے تو یہ ایک بے جا آرزو ہے، جی نہیں ، یہ جملہ ایک پیغام کا حامل ہے ، اور وہ یہ کہ ہمارے اندر آپ کی رکاب میں دین کے لئے جھاد کی آرزو رہے کہ دین کی راہ میں شھید ہوجائیں ، «يا ليتني» شھادت کی آرزو ہے، جھاد کی آرزو ہے ، مبارزہ کی آرزو ہے لھذا یہ پیغام زندہ ہے ۔/۹۸۸/ن۹۳۰/ک۱۰۳۲