رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یہ بات انہوں نے فرانسیسی میڈیا کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہی جس کا مکمل متن سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس اے این اے نے پیر کے روز جاری کیا ہے۔ اس انٹرویو میں صدر اسد کا کہنا تھا کہ ملک کے چپے چپے کو آزاد کرانا آئین اور قانون کے تحت ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اسے پورا کرکے رہیں گے۔
داعش کے گڑھ رقہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں صدر نے کہا کہ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہم حلب کی فتح کو حتمی فتح تصور نہیں کرتے بلکہ اصل فتح اس وقت ہوگی جب شام سے تمام دہشت گردوں کا مکمل صفایا کردیا جائے گا۔
صدر اسد نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ انتہائی حساس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور ہم فتح کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ شامی فوج نے گزشتہ سال کے اواخر میں زبردست پیشقدمی کرتے ہوئے دوسرے بڑے، اہم اور اسٹریٹیجک شہر حلب کو تکفیری دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا ہے۔
صدر بشار اسد نے کہا کہ شام کی مذاکراتی ٹیم ، روس، ایران اور ترکی کی وساطت سے قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والے مذاکرات میں تمام معاملات پر بات چیت کی تیاری کر رہی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ان کی حکومت بطور صدر ان کی پوزیشن پر بات چیت کے لیے تیار ہے تو انہوں نے کہا ہاں مگر ، میری پوزیشن کا تعلق ملکی آئین سے ہے۔ اور اگر مخالفین اس معاملے پر بات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں آئین پر بھی بات کرنا ہوگی۔
صدر بشار اسد نے مزید کہا کہ کسی بھی آئینی معاملے پر ریفرنڈم کرانا ضروری ہے اور وہ ریفرنڈم کے نتائج کی بنیاد پر عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہ کہ صدر عوام کے ووٹوں سے بنتا ہے اور اگر عوام نہیں چاہتے تو انہیں بلیٹ بکسوں تک جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ فیصلہ کرسکیں۔/۹۸۸/ ن۹۴۰