رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل حجت الاسلام راجہ ناصرعباس جعفری نے پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) راحیل شریف کی جانب سے سعودی قیادت میں تشکیل پانے والے امریکی واسرائیلی اتحادکی قیادت قبول کرنے کے حوالے سے اعتراضات اور خدشات پرمبنی کھلا خط جاری کر دیا ہے، ذرائع کے مطابق یہ خط ذرائع ابلاغ کے ساتھ جنرل (ر) راحیل شریف کو بھی بذریعہ ڈاک ارصال کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ اہم خط حجت الاسلام راجہ ناصرعباس جعفری کی جانب سے ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے کہ جب پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل (ر)نے امریکہ واسرائیل کی چھتری تلے تشکیل پانے والے 39ملکی سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی کو قبول کرلیا ہے۔
حجت الاسلام راجہ ناصرعباس جعفری نے اپنےخط میں جنرل (ر) راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کی شخصیت پوری پاکستانی قوم کے درمیان بلاتفریق قابل احترام ہے ، سعودی فوجی اتحاد جس کے قیام کا مقصد داعش کے خلاف اقدامات ہیں اس اتحاد میں داعش کو شکست دینی والی قوتوں کا شامل نہ کیا جانا اس اتحاد کو متنازعہ بنا رہا ہے۔
پاکستان کے محب وطن عوام پہلے ہی ایک آمر کی افغان جہاد پالیسی کا خمیازہ بھگت رہے ایسے میں یہ ایک اور سنگین غلطی شمار ہو گی، یمن کے نہتے عوام گذشتہ دو سال سے سعودی جارحیت کا شکار ہیں جنہیں انسانی اور خواراک کے المیہ کا بھی سامنا ہے ہزاروں شہری سعودی بمباری کے نتیجے میں مارے جا جا چکےہیں ، پاکستان کو دو اسلامی ممالک کے درمیان گشیدگی کے خاتمے کیلئے فریق کے بجائے ثالت کا کردار اداکرنا چاہئے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے سعودی، امریکی اور اسرائیلی اتحاد میں شمولیت پاکستان کے استحکام ، سلامتی اور خودمختاری کے خلاف انتہائی سنگین ہوگی، جس کے نتائج افغان جہاد میں پاکستان کی شمولیت کے بعد ملنے والی دہشت گردی، بدامنی، مذہبی منافرت اور انتہاپسندی کے تحفوں کی طرح ہیں ہوں گے،انہوں نے جنرل راحیل شریف سے کہاکہ پاکستان کی سلامتی ، استحکام اور خودمختاری کی خاطر سعودی امریکی اور اسرائیلی اتحادکی سربراہی کے فیصلے پر نظر ثانی کریں اورعوام کے دلوں میں اپنے لیئے موجزن محبت کا پاس رکھتے ہوئے کسی ایسے اقدام سے پرہیز کریں جو کہ آپ کی شاندار ماضی پر بد نما داغ بن جائے۔
خط کا مکمل متن درج ذیل ہے
محترم جناب جنرل (ر) راحیل شریف صاحب
السلام علیکم :
امید ہے آپ اور آپ کے اہل خانہ خیریت سے ہوں گے۔جناب عالی یہ مادر وطن جسے میں اور آپ پاکستان کہتے ہیں جس کی سر حدوں کے تحفظ کیلئے ہزاروں پاک فوج کے جوانوں نے اپنا خون دیا ہے،جس کی قدر و منزلت شاید آپ سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا ہے کیوںکہ آپ نے ہی تو ان جواں مردوں کی سالاری کا شرف حاصل کیا ہے،آپ ہی تو ہیں جنھوں نے ان ایثارو قربانی کی زندہ مثالوں کی دھڑکنوں کو محسوس کیا ہے۔اور آپ ہی ہیں جنھوں نے اس دھرتی کی منتخب شدہ ،چنیدہ بلکہ زمیں کے ان تاروں کی فدا کاریوں کو لمحہ با لمحہ بہت ہی قریب سے دیکھا ہے ۔پس آپ سب سے بہتر منصف ہیں اس پاک لہو کی قیمت کے۔یقینا یہ بہت قیمتی ہے اور حق تو یہ ہے کی سوائے مادر وطن پر نچھاور ہونے کے اس دنیا کی کوئی شے اس کا حق ادا نہ کر سکتی ہے۔
جنرل صاحب آج جس طرح دشمن اس نشیمن میں آگ لگانے کے درپے ہے ہمارے جوان اسی جذبے سے ان شعلوں کو اپنے لہو سے بجھا رہے ہیں پر کب تلک ہم ان فرزندان وطن سے لہو کا خراج مانگتے رہیں گے ،خاص طور پر جب آگ لگنے میں ہماری اپنی بھی غلطیاں ہوں۔کیا یہ جائز ہے کہ ایک طرف تو ہم انگاروں سے کھیلیں اور دوسری طرف جب شعلے بھڑک اٹھیں تو ان کو بجھانے کیلئے اپنے مستقبل اپنے فخر کا خون بہاتے رہیں ۔
سوویت یونین کے ساتھ جنگ افغانستان میں ایک مخصوص انداز میں شامل ہونے کی جو غلطی ہم نے کی تھی اسی جہنم سے نکلنے والے سانپوں نے جس طرح اس قوم و ملت پاکستان کو ڈسا ہے وہ تو اظہر من الشمس ہے اس پر طرہ یہ کہ یہ بھیانک باب ایک آمر کے دور حکومت میں شروع ہوا۔
ملک کو کبھی فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلا گیا تو کبھی منشیات اور غیر قانونی اسلحہ کی کھائی میں۔ملک و قوم کی اذیتوں کا نہ ختم ہونے والا ایک ایسا باب ہے جو آپ کے سپہ سالار ی کی ذمہ داریوں کو سنبھالتے وقت ایک نہ ختم ہونے والی رات کا روپ دھار چکا تھا۔آپ نے جس وقت اس اہم ذمہ داری کو اپنے مضبوط شانوں پر اٹھایا تو اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد ہمارے دشمن نے ہمیں پشاور میں ایک ایسا تحفہ دیا جس کی تکلیف آج تک وطن کی ماؤں کے سینوں میں آگ لگائے ہوئے ہے۔
آپ نے ملک و قوم سے اس دن یہ عہد کیا تھا کہ بس اب ہم اس دشمن کا قلعہ قمع کیے بغیر چین سے نہ بیٹھیں گے۔قوم جو مایوسی کی دلدل میں جانے کو تھی آپ کے عزم کو دیکھ کر آپ کے ہمراہ ہو گئی۔قوم و ملت نے آپ کی آواز پر لبیک کہا۔فوجی جوانوں نے جوانیاں نچھاور کرنے کی قسم کھائی اور ملک عزیز پاکستان بہتری کی جانب چلا۔ملک و ملت کے ساتھ آپ کی استواری کو دیکھ کر قوم آپ کی دیوانی بنی۔
آئین پاکستان سے آپ کی وفاداری کو دیکھ کر قوم نے آپ کو مسیحا مانا ۔سابقہ آمروں سے جدا آپ کی پروفیشنل روش نے قوم کے سامنے آپ کو سرخرو کیا اور آپ کو قومی ہیرو مانا جانے لگا۔
محترم !آپ کیلئے دعائیں ماؤں کے لبوں سے نہیں دلوں سے نکلیں تھیں ،یہی وجہ ہے کہ آج جب آپ اپنی اور ملک و قوم کی زندگی کا نہایت اہم فیصلہ کر رہے ہیں، میں آپ سے مخاطب ہوں۔آپ نے ہمیشہ ثابت کیا کہ اس وطن عزیز کیلئے آپ سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہے توآج بھی میں آپ سے یہی امید رکھوں گا کہ آپ جب چونتیس ملکی جنگی اتحاد کی سربراہی کا فیصلہ کریں گے تو اس بات کو مد نظر ضرور رکھیں گے ۔
پاکستان مجموعہ ہے مختلف مسالک اور فرقہ ہا ئے اسلامی کا جن میں آپسی ہم آہنگی وطن عزیز کی بقا و سلامتی کیلئے بہر طور ضروری ہے۔ پس ہر ایسا عمل جو اس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبو تاژ کرنے کا سبب بنے پاکستان کے خلاف ہے۔یہ جنگی اتحاد جس کی سربراہی کرنے کی آپ کو پیش کش کی گئی ہے خود اس کی ہیئت ترکیبی سے مسلکی و فرقہ وارانہ تعصب کی بُو آتی ہے ۔پاکستان جو ابھی تک دہشتگردی کے ناسور کے خلاف برسر پیکار ہے ،ایسی نازک صورت حال میں فرقہ واریت اور تعصب کی نئی لہر اس مادر وطن کی امن و آتشی کیلئے زہر قاتل ثابت ہو گی۔
دوسری طرف جنرل صاحب آپ نے ساری زندگی پروفیشنل فوجی کے طور پر گزاری ہے ۔ اس پاک فوج میں جس کا طرہ امتیاز ہی جہاد اور جذبہ شہادت ہے ۔آپ نے تو اپنی سپہ سالاری کے دور میں بھی اگلے مورچوں پر جا کر جوانوں میں انہی جذبات کو مہمیز دی تھی مگر یہاں تو اس جنگی اتحاد کی کارروائیاں یمن کے غریب مسلمانوں کے خلاف ہیں ،جو کہ جنگ سے پہلے بھی اس خطے کی غریب ترین ریاست کے شہری تھے اور اب اس دو سالہ جنگ نے اس برادر اسلامی ملک کو کھنڈرات میں بدل دیا ہے۔
اس لاحاصل جنگ میں اقوام متحدہ کے مطابق انچاس ہزا چھ سو (49600) افراد جاں بحق زخمی ہوئے ہیں ملک کی انہتر فیصد (69%) آبادی کو امداد کی ضرورت ہے جبکہ دس اعشاریہ تین فیصد (10.3%)آبادی کو تو فوری جان بچانے والی امدادکی ضرورت ہے ۔یمن کے غریب اور نہتے مسلمان عالمی اداروں کے مطابق بوجو ہ اس جنگ کے تقریبا قحط کی سی صورت حال میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دئے گئے ہیں۔کیا بہادر پاکستانی افواج کا ہیرو ان غریب اور نہتے مسلمانو ں سے جہاد کرے گا ۔میرے خیال میں تو آپ کی شخصیت اس بات سے بہت بڑی ہے کہ آپ ان مسلمانوں کے قتل عام میں شامل ہوں ۔
ہمیں اپنی مادر وطن کی عزت و وقار اور خوش حالی کی خاطر ان نکات پر ضرور غور کرنا ہو گا کہ افغان جنگ کی وجہ سے جو فرقہ واریت اس ملک میں وارد ہوئی تھی کیا اس چونتیس ملکی جنگی اتحاد میں جانے سے اس کو دوام نہیں ملے گا ؟ کیا آپ کی شخصیت جو سب کے نزدیک محترم ومعتبر ہے اس پر حرف نہ آئے گا؟ کیا ہر مسلک و مکتب سے تعلق رکھنے والا جو آپ کا گرویدہ ہے اس سے مایوس نہ ہو گا اور سب سے بڑھ کر یہ کیا یہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کے حق میں ہے کہ وہ پرائے جھگڑے میں فریق بن جائے۔
مجھے آپ جیسے صاحب فراست شخص سے یہ امید ہے کہ آپ ذاتی منفعت کو پس پشت ڈال کر اس مادر وطن کی خاطر اس فوجی اتحاد سے کنارہ کشی اختیار کریں گے اور ہمیشہ کی طرح پاکستان کے مفادات کو اول رکھیں گے۔
والسلام!
راجہ ناصر عباس جعفری
سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان
/۹۸۹/ف۹۴۰/