14 May 2017 - 20:25
News ID: 428054
فونت
امریکی وزارت خزانہ کے ادارے نے جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سینئر نائب سربراہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور ان کی فلاحی تنظیم کو وہابی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور قریبی تعلقات کی بنا پر دہشت گرد قرار دیتے ہوئے امریکہ میں انکے تمام اثاثے اور املاک کو منجمد کر دیا ہے۔
دہشت گرد

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مہر خبررساں ایجنسی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امریکی وزارت خزانہ کے ادارے " اے ایف اے سی "  نے پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کی اہم اور دیرینہ اتحادی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سینئر نائب سربراہ  اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا علی محمد ابو تراب اور ان کی فلاحی تنظیم " جماعت الدعوی القرآن والسنہ " کو وہابی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور قریبی تعلقات کی بنا پر دہشت گرد قرار دیتے ہوئے امریکہ میں انکے تمام اثاثے اور املاک کو منجمد کر دیا ہے۔

مولانا علی محمد ابو تراب کے ساتھ حاجی حیات اللہ غلام محمد اور عنائت الرحمن کو بھی دہشت گردوں کی اعانت کے مبینہ جرم میں دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اِن سے ہر قسم کے مالی لین دین پر پابندی عائد کر دی ہے ۔

اطلاعات کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ کے ادارے ’’اے ایف اے سی ‘‘ نے اپنے انتظامی حکم نامے میں دہشت گرد تنظیموں القاعدہ، طالبان ، لشکر طیبہ اور داعش سے روابط ،مالی اعانت اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے الزام میں پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کی دیرینہ اتحادی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مرکزی سینئر نائب امیر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا علی محمد ابو تراب اور ان کے ساتھیوں حاجی حیات اللہ غلام محمد اور عنائت الرحمن کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کے فلاحی اور خیراتی ادارے ’’جماعت الدعوی القرآن والسنہ ‘‘ پر پابندی عائد کر دی ہے ۔

امریکی ادارے ’’اے ایف اے سی ‘‘کے سربراہ جان اسمتھ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے دہشت گردوں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کی سرپرستی کرنے والوں کو ہدف بناتے پاکستان کے جن 3 شدت پسند افراد کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے وہ خود ساختہ خیراتی، فلاحی اور ترقیاتی ادارے ’’جماعت الدعوی القرآن والسنہ ‘‘ کے نام پر پاکستان میں بیٹھ کر غیر قانونی اور دہشت گرد سرگرمیوں کے فروغ اور کارروائیوں میں مصروف تھے ۔

امریکی انتظامی حکم نامے میں ان تینوں افراد کی امریکہ میں تمام املاک اور مفادات کو فوری طور پر منجمد کر دیا گیا ہے ۔

ذرائع کے مطابق سعودی عرب سے منسلک وہابی ادارے اور مدارس پاکستان میں بڑے پیمانے پر وہابی دہشت گردوں کو مدد فراہم کررہے ہیں اور پاکستانی حکومت دہشت گردوں کے سہولتکاروں کو کچھ کہنے سے قاصر ہے اور یہی وجہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ کا اصلی سبب ہے۔

جان سمتھ کا کہنا تھا کہ ان افراد اور خود ساختہ فلاحی تنظیم پر پابندی کا مقصد پاکستان میں قائم دہشت گردی کے نیٹ ورکس اور دہشت گردوں کی مالی اعانت بند کرنے کی کوشش ہے ،جس سے طالبان، القاعدہ، داعش اور لشکرِ طیبہ کو مدد فراہم، خودکش حملہ آور بھرتی کئے جاتے اور دیگر شدت پسند سرکش کارروائیوں کو فروغ ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس خود ساختہ فلاحی ادارے اور افراد کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے وہ امریکہ اور پاکستان دونوں کی سکیورٹی کے لیے براہِ راست خطرے کا باعث ہیں، یہ افراد انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ مولانا علی محمد ابو تراب پاکستان کے سرکاری ادارے ’’اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی معروف مذہبی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سینئر نائب امیر ہیں اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر نون لیگ کی ٹکٹ پر کئی مرتبہ سینیٹر منتخب ہونے والے ہیں ۔

مولانا علی محمد ابو تراب کا تعلق بلوچستان سے ہے اور ان کی زیر نگرانی ہی’’جماعت الدعوی القرآن والسنہ ‘‘کے نام سے ملک میں نام نہاد  فلاحی و رفاہی کام کئے جاتے ہیں ،خصوصا عرب ممالک کے تعاون سے پاکستان میں بنائی جانے والی مساجد کی نگرانی اور تعمیراتی کام بھی یہی ادارہ کرتا ہے ۔

انتہائی ذمہ دار اور مصدقہ ذرائع نے مولانا علی محمد ابو تراب کے حوالے سے حیران کن انکشاف کیا ہے کہ مولانا علی محمد ابوتراب کے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے اہم افراد سے انتہائی قریبی اور ذاتی تعلقات بھی ہیں اور بلوچستان میں ان کی زیر نگرانی ایک بڑا دینی مدرسہ بھی قائم ہے جبکہ سینیٹر ساجد میر نے اسی بنیاد پر پہلے مولانا علی محمد ابو تراب کو اپنی جماعت کا سینئر نائب امیر نامزد کیا اور پھر بعد میں اپنی جماعت کے نائب امیر اور اسلامی نظریاتی رکن کے سابق ممبر زبیر احمد ظہیر کی مدت پوری ہونے پر انہیں ان کی جگہ اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بنوایا تھا ۔

مولانا علی محمد ابو تراب معروف جہادی رہنما مولانا فضل الرحمن خلیل کے ساتھ مل کر ’’تحفظ حرمین شریفین کونسل ‘‘ کے پلیٹ فارم سے کافی متحرک ہیں اور وہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے پاکستان میں بہت بڑے حامی سمجھے جاتے ہیں ان کا تعلق افغانستان سے بھی بتایا جاتا ہے جب کہ وہ پاکستان کی ںظریاتی کونسل کے رکن بھی ہیں ۔/۹۸۹/ف۹۴۰/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬