رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دھماکا کابل کے علاقے وزیر اکبر خان کے نزدیک ایک ٹرک میں اس مقام پر ہوا جہاں متعدد غیر ملکی سفارت خانے موجود ہیں جبکہ کابل صدارتی محل بھی قریب ہی واقع ہے۔
عام افغانی شہریوں کے علاوہ سفارتی عملے کے بھی کئی افراد اس حملے میں شدید زخمی ہوئے ہیں جن میں پاکستانی عملہ بھی شامل ہے۔
کابل میں جرمن سفارت خانے کے قریب کل صبح مقامی وقت کے مطابق 8 بجکر 20 منٹ پر ہونے والے بم دھماکے میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مختلف خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق دھماکا بہت ہی شدید تھا جس کی آواز بہت دور تک سنی گئی جب کہ سفارت خانوں سے لے کر اس جگہ سے سیکڑوں میٹر فاصلے پر مکانات تک کے شیشے ٹوٹ گئے۔
افغان سیکیورٹی حکام نے دھماکے میں اب تک 90 افراد کے جاں بحق اور 350 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے اور مقامی اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ فی الحال کسی دہشت گرد گروپ نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی جب کہ تحریکِ طالبان نے اس واقعے پر اپنا مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔
دوسری جانب اسلامی جمہوریہ ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کابل میں ہونے والے دہشت گردانہ اقدام کو مجرمانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ٹھوس کارروائی کا فقدان اس قسم کے بڑھتے ہوئے ظالمانہ اقدامات کا باعث بن رہا ہے۔
بہرام قاسمی نے تشدد و قتل عام کے ذریعے مقاصد کے حصول کو غیر ممکن قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اغیار اور علاقے کے بعض ملکوں کی عدم مداخلت کے ساتھ، کہ جوانتہا پسند گروہوں کو مسلح کرنے میں مصروف ہیں، افغان فریقوں میں مذاکرات کے ذریعے اس قسم کے غیر انسانی اقدامات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔
پاکستان اور ہندوستان نے بھی کابل دھماکے کی شددید مذمت کی ہے۔ ان ممالک نے افغانستان میں ہونے والے خود کش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں افغان بھائیوں کے ساتھ ہیں۔
اس واقعے کو اس سال افغانستان میں ہونے والی سب سے بڑی دہشت گردی کی کارروائی بھی قرار دیا جارہا ہے اور خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں آنے والے گھنٹوں کے دوران مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ اب بھی کئی زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جارہی ہے۔/۹۸۹/ف۹۴۰/